مسعودہ وانی
“استاد ” …پانچ حروف سے بنا یہ لفظ اپنے اندر ایک وسیع معنی رکھتا ہے۔ جیسے
ا… ادب سکھانے والا
س… سدھارنے والا
ت… تمیز سکھانے والا
ا… اچھے اخلاق سکھانے والا
د… علم کی دعوت دینے والا
استاد قوم کا ایک ایسا بہترین سرمایہ ہے جس کی عزت کرنے کی تلقین بڑے بڑ ے مفکروں ، عالموں، فاصلوں اور دانشوروں نے کی ہے۔ یہی نہیں، استاد کے پیشے کو پیغمبروں کے پیشے کا درجہ گیا ہے۔استاد ہی ہے جس نے دنیا میں بڑے بڑے ڈاکٹروں، افسروں،شاعروں ، سائنس دانوں کو پیدا کیا ہے۔یہ استاد ہی ہے جس نے ایک انسان کو زمین سے اٹھا کر آ سمان تک پہنچا دیا۔ استاد ہی وہ عظیم ہستی ہے جو پتھر کو تراش کر ہیرا بنا دیتا ہے ۔یعنی ہر انسان کی بہترین کامیابی کے پیچھے ایک استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ارسطو کا قول ہے ؛
” جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، وہ ان سے زیادہ عزت مند اور قابل احترام ہیں جو بچوں کو پیدا کرتے ہیں۔ والدین زندگی دیتے ہیں ،استاد زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں”۔
کیا دور حاضر میں استاد کی عزت طلباء کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہے ؟۔اس سوال کا جواب ہاں ہے یا نہیں ؟ اگر ہو رہی ہے تو وجوہات کیا ہے؟ سوشل میڈیا، والدین یا ہمارا سماج ؟ اگر وثوق کے ساتھ کہا جائے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ دور حاضر میں استاد کی عزت میں بہت کمی رونما ہورہی ہے۔یا یوں کہئے کہ اب تو طلباء میں وہ ادب و احترام ہی نہیں رہا ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا ۔استاد کی عزت تو اردو کے مشہور شاعر علامہ اقبال نے کی تھی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو علامہ اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا ۔وجہ پوچھے پر اقبال نے یہ کہا کہ جب میرے استاد مولوی میر حسن کو شمسں العلماء کا خطاب دیا جائے تب میں سر کا خطاب لوں گا ۔یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا “ڈاکٹر صاحب آ پکو تو سر کا خطاب اسلئے دیا جارہا ہے کہ آ پ اردو کے بہت بڑے شاعر ہیں ،آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں۔ مولوی میر حسن نے کیا تخلیق کیا ہے‘‘۔ یہ سن کر اقبال نے جواب دیا کہ مولوی میر حسن نے اقبال کو تخلیق کیا۔ یہ سن کر انگریز گورنر نے مولوی میر حسن کو شمسں العلماء کا خطاب دینے کا اعلان کیا اور میر حسن کو لاہور بلوانے کو کہا۔علامہ اقبال کو یہ بات ناگوار گزری کہ میر حسن بزرگ ہیں ،وہ یہاں نہیں آ سکتے، اسلئے انہوں نے انگریز گورنر کو اس بات پر مجبور کیا کہ میر حسن کو اپنے گھر سیال کوٹ میںاس خطاب سے نوازا جائے ۔جب علامہ اقبال کے سارے وعدے پورے ہوگئے تب انہوں نے سر کا خطاب لیا۔
یہ تھا استاد کا ادب و احترام۔ ایک شاگرد کی وجہ سے اس استاد کا نام اب تک یادگار ہے جس کو شاید کبھی کوئی یاد ہی نہیں کرتا اور ایک استاد کی وجہ سے ہی علامہ اقبال ایک مقبول ترین شاعر بن گئے۔مگر دور حاضر میں یہ ادب و احترام استاد کے تئیں اب بالکل بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے استاد کلاس میں جاتے تھے تو بچے ادب و احترام کے ساتھ سلام کرتے تھے لیکن آجکل سلام ، ادب اور نہ احترام۔ استاد کے آ نے سے وہ ٹس سے مس نہیں ہوجاتے ۔اب تو بچوں میں وہ شرم و حیا بھی نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔استاد کو ماں باپ کے برابر سمجھا جاتا تھا لیکن آجکل کے طلباء میں وہ صلاحیت ہی کہاں رہی کہ وہ استاد کا ادب و احترام کریں۔
ایک مشہور قول ہے کہ ’’جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے محروم رہ گیا‘‘۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طلباء کے اس بدلے رویہ کی سب سے بڑی وجہ شوشل میڈیا ہے۔ جدید دور کی اس ٹیکنالوجی نے جتنی زیادہ سہولت پہنچا دی، اس سے زیادہ اسکے نقصانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چونکہ کچھ برسوں سے مختلف حالات کی وجہ سے طلباء کا موبائیل فون سے رابطہ کچھ گہرا ہوتا گیا جس کی بدولت بچوں کے اذہان پر اسکے برے اثرات کا نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ طلباء کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے موبائل فون نے جگہ لے لی۔ اس موبائل فون پرکبھی کبھار کچھ پڑھائی کا دیکھیں گے تو انہیں لگتا ہے کہ استاد نے جو پڑھایا وہ غلط ہے جس کے نتیجے میں وہ استاد کو عزت و احترام نہیں دے پاتے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں اور کبھی کبھار استاد کی چھوٹی موٹی غلطی کو بھی سوشل میڈیا پر اس طرح اچھالا جاتا ہے کہ سماج میں اسکا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔
دوسرا اور سب سے اہم مسئلہ والدین کا ہے جو ہر حال میں بچے کا ساتھ دیتے ہیں چاہے بچہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ پرانے زمانے میں اگر استاد بچے کو غلطی کرتے دیکھتا تھا تو بچے کے ماں باپ کبھی بچے کا ساتھ نہیں دیتے تھے مگر وقت یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب والدین ہی بچے کی غلطی کو سدھارنے کیلئے تیار نہیں ۔یہاں تک کہ اگر بچہ غلطی بھی کرے تو خطاوار استاد کو ہی مانا جاتا ہے اور خود والدین بچوں کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ معلم کو ڈانٹ دے وہ بچے کو ستاتے کیوں ہیں۔ یہ سن کر بچہ کس قدر خوش ہوتا ہے کہ اسکی وجہ سے استاد کو ڈانٹ پڑی تو وہ استاد کا کیا احترام کرے گا۔ اسکے سامنے تو استاد کا کوئی وقار ہی نہیں رہتا ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ماں باپ اور استاد سب ہے خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہاری نعمت
شاعر کی یہ بات تو صحیح تھی کہ استاد یا ماں باپ کی روک ٹوک بچے کیلئے بہتر ہوتی ہے مگر آج کل کے زمانے میں اس کا الٹ ہی ہوگیا ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ اب بچوں نے ہی استاد پر روک ٹوک لگانی شروع کردی ۔
تیسری اور آخری وجہ ہمارا سماج ہے جو کبھی سچ کا ساتھ نہیں دیتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آ ج کل کے طالب علم اپنی مرضی کے مالک بن گئے ہیں۔ نہ کسی کی ڈانٹ ان پر اثر کرتی ہے اور نہ استاد کی نصیحت ۔یہاں تک کہ اب استاد کی نصیحت کو بھی الٹا کیا جاتا ہے۔ استاد کی نصیحت کو سماج میں اسطرح بڑاچڑاکر ملاوٹ کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ استاد کا وقار نہ ہونے کے برابر رہتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ا ستاد کی عزت ہم سب کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ استاد وہ شمع ہے جو خود تو جلتا ہے لیکن دوسروں کو روشنی فراہم کر دیتا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐنے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کیونکہ میں تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں‘‘۔ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے، اسلئے طلباء ، والدین اور ہمارے سماج پر یہ ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ وہ استاتذہ کو وہ عزت و احترام دیں جس کے وہ حق دار ہیںلیکن یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ استاد کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔جہاں ہم بچوں ،والدین اور سماج کو ذمہ دار ٹھہرانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے ،وہیں یہ بھی حق ہے کہ آج کا استاد اُس استاد سے عین مختلف ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔آج بھی اُس استاد کی اُتنی ہی عزت وتکریم ہے جو واقعی استاد کہلانے کے لائق ہے لیکن اب جن لوگوںنے تدریس کو تجارت اور تعلیم کو فقط روزگار کا ذریعہ سمجھا ہو تو ایسے اساتذہ کی تکریم نہیں ہوسکتی ۔اساتذہ کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ پیغمبری مشن سے وابستہ ہیں اور وہ کوئی عام سرکاری ملازم نہیں ہیں بلکہ قوم کے معمار ہیں۔جب ان میں یہ سوچ موجزن ہوگی تو ان کے قول وفعل میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوگی اور وہ خود بخود عزت وتکریم کے اونچے درجہ پر فائض ہونگے جہاں اُنہیں اپنی عزت کروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی اپنے لئے عزت مانگنا پڑے گی بلکہ طلباء ،والدین اور پورا سما ج خود بخود ان کی عزت و تکریم کرے گا اور ان کو اپنی پلکوں پر بٹھائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد اپنے آپ کو اس لائق تو بنائے ۔ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے بچوں اور ہمارے سماج کے اجتماعی برتائو میں بھی تبدیلی لانا ضروری ہے کیونکہ تالی ایک ہی ہاتھ سے نہیں بجتی۔
پتہ۔کنزر ٹنگمرگ،بارہمولہ کشمیر
رابطہ۔[email protected]