ارشاد علی ارشاد۔بانہال، رام بن
زبان خیالات کی ترسیل کا ذریعہ ہےاور یہ ایک تہذیبی اور سماجی ضرورت ہے۔زبان کا تعلق علم صوتیات،علم عمرانیات،علم طبعیات،علم تاریخ اور علم جغرافیہ سے ہے۔زبان ہی انسان کوحیوان سے ممیز کرتی ہے اور زبان سے ہی انسان کی علمی،اخلاقی اور تہذیبی تشخص کا تعین ہوتا ہے۔الغرض انسان کے ما فی الضمیر کے اظہار کے ذریعہ کا نام زبان ہے۔
معروف ماہر لسانیات ڈاکٹر سید غلام محی الدین قادری اپنے مضمون ’’زبان کی ماہیت آغاز اور تشکیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’زبان خیالات کا ذریعہ اظہار ہے اسکا کام یہ ہے کہ یہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسان کے ذہنی مفہوم و دلایل کی ترجمانی کرے۔‘‘
پروفیسر گوپی چند نارنگ زبان کی تعریف کرتے ہوے لکھتے ہیںکہ’’زبان آوازوں اور الفاظ کا مجموعہ ہے ۔‘‘
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے اس کو مختلف ادوار میں زمان ومکان کی مناسبت سے مختلف نام دئے گئے ہیں ۔اردو زبان جب دہلی میں پھلی پھولی تو دہلوی کہلائی،دکن پہنچی تو دکنی کہلائی ،گجرات میں پہنچی تو گجراتی کہلائی ،شمالی ہند میں پہنچی تو ریختہ کہلائی اور شاہی دربار میں پہنچی تو اردو معلی کہلائی جبکہ خالص اردو نام اسکو بہت بعد میں پڑا۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ’’اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام رہا ہے ۔‘‘ صوفیائے کرام نے فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے منتخب کیا کیونکہ اردو سارے ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی تھی اور یوں اردو زبان صوفیاء کرام کی وجہ سے رشدو ہدایت اور پند و نصایح کا مؤثر ذریعہ بن گئ۔امیر خسرو نے بچوں کے ادب پر پہلی اردو کتاب ’’ خالق باری ‘‘ لکھی اور رفتہ رفتہ پھر اس زبان میں فکر و فن کی گہرائی اور اچھی خاصی صلاحیت پیدا ہو گئی ۔
سید سلیمان ندوی نقوش سلیمانی میں لکھتے ہیں ،’’ اردو زبان کا پیدا ہونا کسی ایک قوم یا قوت کا کام نہیں بلکہ یہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے‘‘ ۔ہندوستان بھر میں اردو زبان کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ انگریزوں نے اپنے اہلکاروں کو اردو زبان سکھانے کے لئے ۱۸۲۰ عیسوی میں لندن میں ایک کالج ادارۃشرقیہ قائم کیا جبکہ ۱۸۰۰ عیسوی میں فورٹ ویلیم کالج کولکتہ کا قیام بھی اسی غرض وغایت سے عمل میں لایاگیا تھا۔
اردو زبان کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ،کیونکہ یہ عمومی طور پر عالمی اور خاص طور پر برصغیر کی زبان ہے۔ جموں وکشمیر ملک کی واحد ریاست رہی ہے جس میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ۔۱۹۳۸ عیسوی میں جموں وکشمیر سرکار نے ایک ایجوکیشن کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اردو ایک جاندار زبان ہے اور اسکا ادب ہندوستان میںایک مقام رکھتا ہےاوریہ زبان دوسری زبانوں کو اپنے دائرہ عمل میںساتھ لئے چلنے کی طاقت رکھتی ہے لہٰذا میڈیم آف انسٹرکشن اردو ہی ہونا چاہئے۔جموں وکشمیر میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے زمانہ سے ہی اردو زبان کو تقویت ملنا شروع ہو گئ تھی اور بعد ازاں۱۹۳۸ عیسوی میں اسے سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ریاست کا پہلا اردو اخبار ’’رنبیر‘‘1924 عیسوی میں جموں سے جبکہ کشمیر سے پہلا اردو اخبار ’’وتستا‘‘ ۱۹۳۲عیسوی میں شایع ہوا۔
اردو زبان کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں سابقہ وزیراعظم ہند اٹل بہاری واجپائی رقم طراز ہیں ۔’’جن سنگھ اردو کو ایک ( ہندوستانی)بھارتیہ بھا شا مانتی ہےاور اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘
پروفیسر رنگا کہتے ہیں :’’ اردو ایک تہذیبی زبان ہے۔اسکو برقرار رہنا چاہئے، یہ دستور کی چودہ زبانوں میں سے ایک ہے۔‘‘
مہاتما گاندھی نے کہا ہے:’’میں اردو کی ترقی چاہتا ہوں ، میرا خیال ہے کہ سب ہندوستانی جو ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اردو سیکھیں اور سب مسلم ہندی سیکھیں۔‘‘
اردو زبان کو چار چاند لگانے میں شاعروں ،ادیبوں، مفکروں ، علماء اخبارات اور ریڈیو کشمیر نے زبردست کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔شعراء اور ادبا نے اس زبان کو سنوارا ،نکھارا، ابھارا اور اسے تراش خراش کر اسمیں مٹھاس ،لطافت ،شیرینی اور خوبصورتی پیدا کی جبکہ علماء نے اس زبان کو تدبر اور شایستگی سے مزین کیا۔
جہاں تک جموں وکشمیر کا تعلق ہے یہ تین اکائوں پر مشتمل ایک ایسا خطہ ہے جہاں ہر اکائی میں لوگ الگ الگ اپنی اپنی مادری زبانیں بولتے ہیں لیکن یہ واحد اردو زبان ہے جس نے ان تینوں اکایئوں کو باہم جوڑے رکھا ہے ۔اردو یہاں کی دفتری، تجارتی اور سماجی سطح پر لازمی رابطے کی زبان ہے۔یہ یہاں عدالتوں ،محکمہ مال اور محکمہ پولیس کی زبان ہےاور اسی زبان میں تاجروں کے بہی کھاتے سجھے ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور مسلمانوں کا اکثر اثاثہ اسی زبان میں محفوظ ہے۔قرآن و حدیث کے اکثر تراجم و تفاسیر اور علم فقہ اسی زبان میں مروج ہے۔اردو زبان میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں جن میں ہماری ثقافت، تہذیب اور علمی وراثت کا پے پایاں خزانہ موجود ہے جو ہمارے اسلاف ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں اور اس میراث کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ انسانیت کی ٹمٹماتی قندیل کو فقط اسلامی تعلیمات کی روشنی سے ہی روشن رکھا جا سکتا ہے اور یہ روشنی اردو زبان کے ذریعہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔مولانا الطاف حسین حالی (مسدس حالی) میں اردو زبان کی اہمیت پر لکھتے ہیں۔
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں
حفیظ جالندھری نے ( شاہ نامہ اسلام) کے ذریعے اسلامی تاریخ کے واقعات بیان کر کے اردو زبان کے ذریعے قوم کو آشنائی دی ۔ سیماب اکبر آبادی دعا کرتے ہیں کہ ’’ کاش مستقبل تیرا ماضی کو پھر آواز دے‘‘۔ وہ ’’ ہندوستان ‘‘ نام کی نظم لکھ کرنوں جوانوں کے جوش و جذبہ کو توانا کر دیتے ہیں۔
پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، ڈاکٹر پریمی رومانی کے بارے میں ’’ اقبال اور جدید اردو شاعری‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ یہ کہنا کہ پریمی رومانی اردو زبان و ادب سے محبت کرتے ہیں صورت حال کو واضح نہیں کرتا بلکہ اس لفظ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہیں اردو زبان و ادب سے عشق ہےاور یہ عشق انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے۔ اقبال ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی موروثی زبان سے عشق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اسلاف کی وراثت سے فیضیاب ہو سکیں اور مغربی تہذیب کی چکا چوند سے خود بھی بچیں اور اپنی نئی پود کو بھی بچایں ورنہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے ایک دن خود کشی کرے گی۔جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا۔
جدید دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔انسانی رشتے اور قدریں روز بروز پامال ہوتی جا رہی ہیں انسان اس مادی دنیا میں آگے نکلنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے ،ایسے میں اگر وہ اپنی تہذیب ،تمدن اور موروثی زبان سے بھی دور چلا گیا تو پھر وہی بات صادر آجاتی ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
لہٰذا اردو زبان کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی زبان میں ہمارا ملی اثاثہ قلم بند ہے اور اسی میں ہماری آبرو ،آن بان اور شان ہے۔
رابطہ۔.9906205535
[email protected]