شبیر احمد بٹ
احسان کرنے والا فخر سے جیتا ہے اور عزت کی موت مرتا ہے جب کہ احسان فراموش ذلت کی زندگی تو جیتا ہی ہے مگرذلت کی موت بھی مرتا ہے ۔
انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک بہت سے احسانات کے زیر بار ہوتا ہے ۔ہم پر سب سے پہلا اور بڑا احسان خالق کائنات اللہ رب العالمین کا ہے ،وہی ہمارا خالق و مالک ہے ۔اس کے بعد ہم پر سب سے بڑا احسان رحمت اللعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جن کے صدقے ہمیں اپنے خالق و مالک کی پہچان ملی ۔جن کے صدقے ایمان ملا ۔
والدین کا احسان،اساتذہ کا احسان،ان لوگوں کا احسان جو مشکل گھڑی میں اپنی بساط کے مطابق ہماری مدد کرتے ہیں ۔ہمارے لئے سچے دل سے دعا کرتے ہیں ۔ان لوگوں کا احسان جو ہماری خوشی میں مخلص بن کر شریک ہوتے ہیں اور اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ ہماری خوشی سے خوش ہوتے ہیں ۔
مگر موجودہ دور جو مادیت اور انا پرستی کی معرکہ آرائیوں سے بھرا پڑا ہے، اس میں آدمی ہر وقت ہر دن احسان فراموش بنتا جارہا ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی یہ زہر ،
شیریں جام کی طرح پلا رہا ہے ۔سب سے پہلے اپنے خالق اور اپنے خالق کے محبوب کے احسانات کو بھلا کر ناشکری کرتا رہتا ہے ۔فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ،
’’جو تم سے بھلائی کے ساتھ پیش آئے تو اسے اچھا بدلہ دو اور اگر تم اس کی استطاعت نہ رکھو تو اس کے لئے اتنی دعا دو کہ تمہیں یقین ہو جائے۔‘‘ کہ اس کا بدلہ چکا دیا ہے ،جسے کوئی چیز عطا کی گئی ہو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو اس کا بدلہ دے ۔اگر استطاعت نہ ہو تو اس کی تعریف کردے کیونکہ جس نے تعریف کی ،اس نے شکر ادا کیا اور جس نے اسے چھپایا اس نے نا شکری کی ۔‘‘
جس طرح احسان کرکے جتانا مذموم ہے، اسی طرح کسی کے احسان کو جھٹلانا یعنی احسان فراموشی بھی مذموم ہے ۔ہمارے سماج میں احسان مندی کا رحجان ناپید ہوتا جارہا ہے ۔بیٹا باپ کے احسانات کو تسلیم کرنے کے بجائے کہتا ہے کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کِیا ہے ۔شاگرد اُستاد کے احسانات کو یہ کہہ کر فراموش کر دیتا ہے کہ آپ نے ہمیں کون سا مفت پڑھایا ہے ۔شوہر بیوی سے کہتا ہے کہ تم گھر پر سارا دن کرتی کیا ہو ،اور بیوی کا شکوہ یہ کہ مجھ پر ہر حکم چلانے کے سوا اور تمہارا کام کیا ہے ۔فرمائش پوری نہ ہونے پر یہی کہتی ہے کہ تم نے شادی کے بعد آج تک مجھے دیا ہی کیا ہے، گھر میں مجھے کبھی کوئی سُکھ ملا ہی نہیں ۔ماں باپ بچوں کی قربانیوں اور محنت کو یکسر فراموش کرکے طعنے مارتے رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت میں تمہارے لئے یہ کیا، فلاں دن وہ کیا اور تم ہو کہ صرف بیوی کی طرفداری کرتے رہتے ہو ۔
مسلمان کو مالی نقصان پہچانا،اس کے عیب اچھالنا،اسے دھوکہ دینا،تکبر کرنا،حسد کرنا،غیبت کرنا، اسے بے عزت کرنا ہم سب کی نظروں میں کتنا بُرا ہے اور اگر اب یہی سب کچھ اپنے محسنوں کے ساتھ کیا جائے تو اس طرح کی احسان فراموشی کتنی بدترین اور نالائقی ہے ۔پھر چاہیے محسن اللہ ہو،رحمتِ مصطفی ہو یا پھر دنیا کا کوئی اور شخص جس نے ہم پر احسان کیا ہو ۔حضرت علیؓ کا قول ہے :’’جب تم کسی پر احسان کرو تو اُسے چھپائو اور اگر کوئی تم پر کرے تو اسے پھیلائو ۔حقیر پن کی سب سے نچلی سطح احسان فراموشی ہوتی ہے یہ ایک جراثیم ہے جو پھیلتے اور بڑھتے رہتے ہیں ۔
ارسطو نے انسان کو سماجی حیوان کہا ہے ۔سماج ایک ایسی کڑی ہے، جس کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہوسکتا ۔دراصل سماج انسانوں کے رابطے اور اخوت کا ایسا مادہ ہے ،جہاں ہر فرد صاحب حیثیت ہوتے ہوئے بھی خودکفیل نہیں اور جب آدمی انا پرستی،احسان فراموشی کے مرض مہلک میں مبتلا ہوجاتا ہے تو فیصلہ سازی کے فقدان اور خوف کے باعث وہ عمل سے اجتناب کر لیتا ہے اور پھر یہی ناکامی کا سبب بنتا ہے ۔
احسان کرنے کا یہ افتخار ہے کہ وہ احسان کرکے بھول جائے مگر احسان لینے والے کہ یہ پہچان ہے کہ ہمیشہ احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے ۔بقول شاعر ؎
ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے
کہ جن پہ بوجھ میں ڈالوں وہ کاندھے یاد رکھتا ہوں
احسان فراموش کم ظرف ہوتا ہے اور اس کے دامن میں زیادہ سمیٹنے کی جگہ نہیں ہوتی، اس لئے اپنی اوقات بھول کر دشمنی اور برابری پر اتر آتا ہے اور کئی بار احساس کمتری، سرکشی کا روپ دھار کر اس ہستی کے مقابل لے آتا ہے کہ وہ احسان کرنے والے کو خود سے برتر سمجھ کر اس سے مخاصمت پر تل جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ کم ظرف پر احسان کرو مگر اس کے شر سے بچو ۔احسان فراموش کی فطرت میں ڈنک مارنا اس طرح شامل ہے جیسے زہر میں ہلاکت ۔بے شک شکر کرنے سے ایک عجیب تسکین اور خوشی میسر آتی ہے ۔بے چینی اور اضطراب کم ہوجاتا ہے اور احسان مند کہتے رہتے ہیں کہ ؎
ہم رنج پانے پر بھی ممنون ہوتے ہیں ہم سے تو نہیں ممکن احسان فراموشی
پتہ۔۔رحمت کالونی ،شوپیان کشمیر
موبائل۔ 9622483080
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)