شوکت حمید شاہ
تملہ ہال ،پلوامہ ضلع میں تقریباً100 دیہات پر مشتمل علاقہ ’شاہورہ ‘ میں ایک ایسامقبول گائوں ہے جو نہ صرف رقبہ کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے بلکہ گائوں میںچشموں کی بہتات ہونے کی وجہ سے یہاں کا ماحول دلفریب ہے اور علاقہ میں ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔یہی وجہ سے کہ اسے علاقہ میں ’’Village of Springs‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ضلع ہیڈ کوارٹر سے 6کلو میٹر دور تملہ ہال پلوامہ۔ سنگم۔اننت ناگ سڑک پر واقع ہے۔گائوں کا مشرق سے مغرب تک کا فاصلہ(لمبائی)5کلو میٹر ہے اور شمال سے جنوب تک اس کی چوڑائی ڈیڑھ کلو میٹر ہے۔اس حصے میں لہلہاتے دھان کے کھیت ،سیب کے سینکڑوں باغات ،سینکڑوں چشمے ،ندیاں ،سڑک ،رابطہ سڑکیں ،کھیل کا ایک بڑا میدان (شاہ ظہور سپورٹس سٹیڈیم ) ،سیب ،بھید اور شہتوت کی 3بڑی سرکار ی نرسریاں ،آبپاشی نہر ،آستان شریف اور ایک سو فٹ اونچا ٹیلہ ہے۔تملہ ہال کے مشرق میں آرمولہ اور بٹ نور ،چندگام ،شمال کی طرف ٹہاب اور ذاسو ،مغرب کی جانب شادی پورہ ٹہاب ،چک ڈار ،رکھ چڈرن اور جنوب کی جانب لاسی پورہ اور صنعتی علاقہ لاسی پورہ واقع ہے ۔گائوں کے مغرب میں نالہ رنبی آرہ سے نکالی گئی قدیم آبپاشی نہر ،جو کہ تملہ ہال کے کریواہ حصہ کے 2کلو میٹر سے آگے گذر کر ٹہاب اور آگے نونگری کریواہ تک پہنچتی ہے ،اس کا ذکر راج ترنگنی میں بھی ہے ۔گاؤں کا کل جغرافیائی رقبہ 303.1 ہیکٹر ہے جبکہ2011کی مردم شماری کے مطابق آبادی 1,657 افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے مردوں کی آبادی 869 ہے جبکہ خواتین کی آبادی 788 ہے۔
گائوں کی وجہ تسمیہ کے بارے میں روایت ہے کہ دور دور سے آئے لوگ میدان ’پتھری بل ‘ میں کچھ دن آرام کرتے تھے اور بعد میں چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام پھر ’’تم ہال ‘‘(آرام کرنے کی جگہ ) پڑ گیا اور بعد میں یہی تملہ ہال میں بدل گیا ۔گائوں کے مغرب میں حضرت سید جعفر ؒ کا آستان ٹیلے پر واقع ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیلہ پہلے ایک بڑا چشمہ ہوا کرتا تھا اور یہ وسیع چشموں کا منبع تھا۔موسم گرما میں چشمہ کا پانی جوش اوربل کھاتے ہوئے خارج ہوتا تھا،اور بستی کے فصلات، مال مویشی کو اپنے لپیٹ میں لاکر تباہی مچا دیتا تھا ۔جب یہ بات بادشاہِ وقت تک پہنچی تو انہوں نے ڈھنڈورا پٹوایا ،جس کے بعد جمعیت ِ کثیر آئی اور پتھر ،مٹی (ٹوکریوں میں پیٹھ پیچھے لادھ لادھ کر چشمہ کو بھر دیا گیا اور یہاں ایک ٹیلہ بن گیا ۔چشمہ کے پانی نے باہر نکلنے کی سرعت رفتاری اختیار کی اور اس طرح ٹیلے کے گرد و نواح میں چشمے ہی چشمے اُبل پڑے۔
تملہ ہال گائوں کو چشموں کی آما جگاہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ٹیلے پر نشست گاہ حضرت سیدجعفر ؒ کے گرد و نواح بے شمارچشمے پھوٹتے تھے اور موسم بہار شروع ہوتے ہی کھیتوں کے نزدیک بھی چشمے اُبلنا شروع ہوتے ہیں ۔کریوا ہ پر پھوٹے چشمے اپریل سے ستمبر تک جوبن پر ہوتے ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ خشک ہوجاتے ہیں۔گائوں کے350گھرانوں کو پانی کی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے جبکہ نشیبی بیسیوں دیہات کو تملہ ہال کے چشموں سے پانی جاتا ہے۔گائوں کے ایک سو سے زائد گھروں کے صحنوں میں پانی کے چشمے سال بھر اُبلتے رہتے ہیں ۔سابق ضلع انفارمیشن آفیسر اورکئی کتابوں کے مصنف حمید اللہ شاہ حمیدؔ کے مطابق سال بھر300چشموں سے پانی خارج ہوتا ہے اور بستی کی4بڑی ندیوں سے بہتا ہے ۔بڑے چشموں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔سڑک کے مغربی کنارے عید گاہ کے سامنے ’ناگہ بل ‘ ہے۔1955ء میںوزیر اعظم بخشی غلام محمد کے دور حکومت میں اس چشمے کی پتھروں سے اونچی دیوار بندی کی گئی۔اس کے متصل قدیم زمانہ کے 2چنار کے درخت ایستادہ ہیں۔چشمہ کے شمال کی طرف پارک اور پنچایت گھر ہے ۔قدیم زمانے سے بستی کے مختلف چشموں کو کئی ناموں سے پکارا جا تا ہے ،جن میں گُور ناگ،پہل ناگ ،بٹہ ناگ ،وانی ناگ،خضرن ناگ ،نائد ناگ ،شیخہ ناگ ،ڈانگر ناگ،رازہ ناگ ،دیند ناگ ،ناگن ،مغل ناگ وغیرہ شامل ہیں ۔اسی وجہ سے نلوں کے ذریعے پینے کے پانی کی سکیم کے دائرے میں تا حال نہیں آیا ہے۔
کھلی کھلی جگہ ،درختوںکی بہتات اور پانی کے وسیع ذرائع گائوں کی خوبصورتی کو دلفریب اور دلکش بناتے ہیں۔ بھاری بھر کم چنار کے درجنوں پیڑ،محکمہ سری کلچر کی سینکڑوں کنال شہتوت کی نرسری ،محکمہ دیہی ترقی کی100کنال بھید کی نرسری،محکمہ باغبانی کی نرسری (مختلف قسموں کے پھل دار پودے)،وقف بورڈ کا ایک بڑا میوہ باغ (جس میں درجنوں قسم کے درخت ہیں)،سڈکو سے ٹہاب نونگری تک پھیلی آبپاشی نہر،نجی طور پر اُگائی گئی متعدد پھل دار درختوں کی نرسریاں بستی کی دلکشی بڑھاتی ہیں ۔تملہ ہال صاف و شفاف پانی ،بل کھاتی ندیوں ،لا تعداد چشموں پر مشتمل سر سبز و شاداب سرزمین ہے ۔ہزاروں کنال اراضی پر سیب کے سینکڑوں باغات کے ساتھ ساتھ کھیل میدان،ٹیلہ پر حضرت سید جعفر ؒ کی نشست گاہ ،اس کے ساتھ500سال پرانے 2بڑے درخت (برن) ، بستی کو چیرتی ہوئی2بڑی ندیاں اور موسم گرما میں ندیوں کا سوز،شاداب کھیت کھلیان تملہ ہال گائوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں ۔
گائوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش میوہ باغات ،دھان کے کھیت ،دودھ کی پیدوار اور قریبی صنعتی مرکز لاسی پورہ ہیں ۔کچھ لوگ کارو بار اور کاریگری کے ساتھ جڑے ہیں اور متعدد افرادسرکاری ملازمت بھی کرتے ہیں۔گائوں میں کئی سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ 3ڈاکٹر ،6انجینئر ،متعدد اساتذہ اور نجی اداروں میںمختلف عہدوں پر فائزنوجوان بھی ہیں ۔سیب کے بڑے بڑے باغات کی وجہ سے بیسیوں گھرانے کافی آسودہ حال ہیں ۔گائوں کے سارے لوگ روایتی بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بستی میں آباد پنڈت گھرانوں نے یہاں سے ہجرت نہیں کی ،چند ایک پنڈت لوگ بہ سلسلہ روزگار جموں ،نئی دہلی اور کئی ممالک میں مقیم ہیں تاہم ان کا آنا جانا لگارہتا ہے ۔گائوں میں وانی ذات کے ایک سو ،میر ذات کے30،حجام ذات کے20،ملک ذات کے 15اورقوم شاہ کے10گھرانے رہائش پذیر ہیں۔اس کے علاوہ بٹ ،ٹھوکر ،شیخ ،آہنگر ،وگے ،نجار وغیر ہ بھی ہیں ۔گائوں کے بزرگ صوفی شاعر میر عزیز کہتے ہیں ’’ گائوں میں شاہ قوم کی علیحدہ شناخت ہے ،جو پہلے پیر مریدی اور درس و تدریس کا کام کرتے تھے مگر غلام نبی شاہ ظہورؔ کا اس خاندان میں بطور صوفی شاعری اور انقلابی مجازی جداگانہ تھا ،مرحوم سرینگر میں روزنامہ آفتاب ،سرینگر ٹائمز ،ہمدرد وغیرہ میں بطور کاتب کام کرتے تھے ۔وہ زندگی کے آخری10برسوں میں سخت علالت میں رہے تاہم انہوں نے غربت کو آڑے نہ آنے دیا اوردرجنوں کتابیں لکھیں ۔90کی دہائی میں دور درشن پر ان کی زندگی پر مبنی آدھے گھنٹے کا پروگرام نشر ہوا جبکہ سرکار نے بستی میں ان کی یاد میں ایک ہیلتھ سب سینٹر ،ویٹرنری سنٹر ،سپورٹس میدان تعمیر کیا ۔میر عزیزمزید کہتے ہیںکہ شاہ ظہورؔ ایک کشمیری شاعر تھے تاہم انہیں فارسی اوراردو کے ساتھ ساتھ کئی زبانوں پر بھی عبور تھا۔گائوں میں آج بھی مرحوم محمد عبداللہ وانی ،ماسٹر مکھن لال ،محمد عبداللہ میر، انجینئر شوکت احمد شاہ، ماسٹر اسد اللہ ڈانگرو،عبدالغنی وانی ،پیر محمد طیب شاہ،غلام محمد ملک، علی محمد شاہ جیسی شخصیات کو یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے گائوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے ہیں ۔
گائوں میں ایک عالیشان جامع مسجد ہے جبکہ بابا نصیب الدین غازی ؒ کی بنائی ہوئی ایک مسجد شریف کے علاوہ 6چھوٹی مساجد بھی ہیں۔گائوں میں ٹیلہ پر واقع آستان (حضرت سید جعفر ؒ(دیدہ زیب ہے ۔یہاں سے گائوں کا پورا منظر دکھائی دیتا ہے ۔
معروف شاعرغلام نبی ظہورنے ؔ اپنی جائے پیدائش کے حسن و جمال کو ان اشعار میں بیان کیا ہے۔
مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے سینئر ایڈیٹر اور محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے اعزازی رکن ہیں)
ای میل۔ [email protected]
(نوٹ۔ مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجانا چاہئے)