عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی/لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب ہوئے طاقتور دھماکے کے بعد دہلی پولیس کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور قومی راجدھانی میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن جاری ہے۔ بدھ کے روز حکام نے بتایا کہ اس دھماکے میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔حکام کے مطابق، دہلی کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر نیم فوجی دستوں کے ساتھ بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ شہر میں آنے جانے والی تمام گاڑیوں کی سختی سے تلاشی لی جا رہی ہے تاکہ کوئی مشتبہ سرگرمی یا شخص نظروں سے اوجھل نہ ہو
سینئر پولیس افسران خود مختلف بین الریاستی سرحدوں جیسے غازی پور، سنگھو، ٹکری اور بدرپور پر سکیورٹی چیکنگ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ احتیاطی اقدامات اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت روکا جا سکے۔ پولیس ذرائع کے مطابق بازاروں، میٹرو اسٹیشنوں، ریلوے ٹرمینل اور بس اڈوں پر گاڑیوں اور سامان کی تفصیلی تلاشی لی جا رہی ہے۔ عوامی مقامات، سیاحتی مراکز، مالز اور مذہبی مقامات کے اطراف میں گشت بڑھا دیا گیا ہے۔ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا، ’’ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے رہے۔ ہماری پہلی ترجیح عوام کا اعتماد بحال رکھنا اور شہر کو محفوظ بنانا ہے۔‘‘
پولیس نے رہائشیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ چوکس رہیں اور کسی بھی مشتبہ شے یا شخص کی اطلاع فوری طور پر ایمرجنسی ہیلپ لائن پر دیں۔ حساس مقامات پر اسنیفر ڈاگ ٹیمیں، میٹل ڈیٹیکٹر اور انسدادِ ہنگامہ فورسز بھی تعینات کی گئی ہیں۔ دریں اثنا، سکیورٹی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دہلی پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور نیم فوجی فورسز کے درمیان متعدد اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے سخت انتظامات مزید دنوں تک برقرار رہیں گے۔پولیس نے بتایا کہ خفیہ معلومات کے بعد چند مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، تاہم ابھی تک کسی تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
حکام نے شہریوں سے افواہوں پر یقین نہ کرنے اور صرف تصدیق شدہ ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایک سینئر افسر کے مطابق، ’’یہ وقت اتحاد اور ہوشیاری کا ہے۔ عوام کے تعاون سے ہم کسی بھی خطرے کو ناکام بنا سکتے ہیں۔‘‘ شہر کے حساس علاقوں میں سکیورٹی کی بھاری موجودگی سے ماحول میں تشویش ضرور پائی جا رہی ہے لیکن حکام نے یقین دلایا ہے کہ دہلی کو ہر ممکن حد تک محفوظ بنانے کے لیے تمام ادارے پوری طرح سرگرم ہیں۔