کشمیر کی پہلی کلون شدہ بکری ’نوری‘مر گئی، سائنس کی دنیا کو بہت بڑا نقصان

یو این آئی

سری نگر//وادی کشمیر کی پہلی کلون شدہ بکری ‘نوری’ مر گئی ہے جس سے سائنس کی دنیا کو بہت نقصان ہوا ہے۔
کشمیر نے سال 2012 میں یہ مثالی کارنامہ انجام دیا تھا جب سائنس دانوں نے ملک کو دوسرا کلون شدہ جانور فراہم کیا تھا۔ اس کلون شدہ پشمینہ بکری کا نام نوری رکھا گیا تھا۔ ہندوستان کا پہلا کلون شدہ جانور بھینس کا بچہ ہے جو سال 2009 میں ہریانہ میں پیدا ہوا تھا۔
ڈاکٹر ریاض شاہ اور دیگر 6 سائنسدانوں کو شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر ٹیکنالوجی کے جانور بایو ٹیکنالوجی سینٹر میں یہ سائنسی کارنامہ دینے میں دو سال لگ گئے تھے۔
نوری 9 مارچ 2012 کو تین ماوں کے ہاں پیدا ہوئی(ایک نے انڈا فراہم کیا، دوسرا ڈی این اے اور تیسرے نے کلون شدہ ایمبریو کو مدت تک پہنچایا۔
بتادیں کہ پشمینہ اون دینے والی پہلی کلون بکری نوری ، کلوننگ کے مروجہ طریقوں کے تحت پیدا نہیں کی گئی، کیونکہ اس کیلئے انتہائی مہنگے ہائی ٹیک آلات اور کیمیکلز کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس کی بجائے مقامی وسائل اور سادہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔
سائنس انٹرپونیر نوید چکن نے کہا کہ نوری کی پیدائش سومیٹک سیل نیوکلیئر ٹرانسفر کی سائنسی تکنیک کا نتیجہ تھی، یہی طریقہ دنیا کے پہلے ممالیہ ڈولی کی کلوننگ میں استعمال کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، “جب ہم نوری کے نقصان پر سوگ منا رہے ہیں، جوہری منتقلی کے ذریعے کلون کی جانے والی پہلی پشمینہ بکری، ہمیں زندگیوں کو متاثر کرنے اور تبدیل کرنے کے لیے سائنس کی بے پناہ صلاحیت کی یاد بھی دلاتی ہے”۔
‘نوری’: دنیا کی پہلی کلون شدہ پشمینہ بکری 115 سال کی عمر میں چل بسی۔
انہوں نے کہا، “نوری نے مجھے اس وقت متاثر کیا جب میں ایک طالب علم تھا، یہی وجہ ہے کہ ہمارا سٹارٹ اپ ‘دسکدن انوویشنز’ اسی ڈویژن میں شامل ہے جس نے 2012 میں یہ شاندار کارنامہ انجام دیا تھا۔ ہم نوری کی میراث اور اہم کام سے گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں۔ہمارے خیالات فیکلٹی آف ویٹرنری سائنسز اینڈ اینیمل ہسبنڈری کی ٹیم کے ساتھ ہیں”۔
واضح رہے کہ سائنس دانوں نے لیبارٹری میں کشمیر کے ہمالیائی علاقے میں پائی جانے والی نایاب نسل کی بکری کی نقل تیارکر لی تھی جس سے قیمتی نسل کی ان بھیڑوں کی بڑے پیمانے پر افزائش کی راہ ہموار ہونے کی توقع تھی۔
وادی کشمیر میں اعلیٰ معیار کی اون فراہم کرنے والی بکریوں کی کئی نسلیں موجود ہیں، جن میں تبتی اور منگولیا نسل کی بکریاں خاص طورپر شہرت رکھتی ہیں۔ ان بکریوں کو چھوٹے چھوٹے ریوڑوں کی شکل برف پوش بالائی پہاڑی علاقوں میں پالا جاتا ہے۔اگرچہ ان کی اون بہت گرم ہوتی ہے لیکن اس میں پشمینہ جیسی نرمی اور ملائمت نہیں ہوتی۔
پشمینہ پیدا کرنے والی بکریاں زیادہ تر لداخ کے دورافتادہ علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہے اور حالیہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مخصوص نسل مسلسل گھٹ رہی ہے۔