التجا مفتی کو اپنے خاندانی گڑھ بجبہاڑہ سیٹ پر سخت مقابلے کا سامنا

سری نگر/مفتی خاندان کا گڑھ مانے جانے والے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ اسمبلی حلقے پر ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی امید وار التجا مفتی جو پہلی بارالیکشن لڑ رہی ہیں، کو سخت اور دشوار گذار مقابلہ در پیش ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔
اگر چہ اس نشست کے لئے سب سے کم تین امید وار میدان میں ہیں لیکن التجا کے لئے نیشنل کانفرنس کے سینئر اور با اثر لیڈر ڈاکٹر بشیر ویری کا مقابلہ کرنا بہت بڑا چیلنج مانا جا رہا ہے۔اس حلقے کے لئے تیسرے امید وار بی جے پی کے سینئر لیڈرصوفی یوسف ہیں۔اگرچہ انہوں نے اس سے قبل بھی اسمبلی انتخابات میں بحیثیت امیدوار حصہ لیا ہے لیکن ابھی تک کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔
بجبہاہ اسمبلی حلقہ جو بجبہاڑہ – سری گفوارہ اسمبلی حلقے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کے لئے تین مرحلوں پر محیط اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو پولنگ ہوگی۔پی ڈی پی کے ایڈیشنل جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ محمد یوسف کا کہنا ہے: ‘جہاں تک بجبہاڑہ نشست پر التجا مفتی کے مقابلے کا تعلق ہے، در اصل یہاں تمام طاقتیں پی ڈی پی کے خلاف بر سر جد جہد ہیں کہ کہیں یہ پارٹی اقتدار میں نہ آئے۔
انہوں نے کہا ‘ہم ان تمام طاقتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور نہ صرف بجبہاڑہ سیٹ پر بلکہ جنوبی کشمیر کی تمام سیٹوں پر کامیاب ہونے کی امید کرتے ہیں۔موصوف جنرل سکریٹری کا کہنا تھا: ‘تاہم ہمیں اپنے لوگوں پر بھروسہ ہے وہ پی ڈی پی کو ہی ووٹ دیں گے۔انہوں نے کہاہمارے ورکر زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں اور ووٹروں کو پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔تاہم سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ پی ڈی پی امید وار التجا مفتی کے لئے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ان کا مقابلہ براہ راست نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر بشیر ویری کے ساتھ ہے جن کا اس نشست پر اچھا خاصا اثر و نفوذ ہے۔
بجبہاڑہ – سری گفوارہ سیٹ پر مفتی خاندان کی دو پیڑیوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور پارٹی سال 1996 سے مسلسل اس سیٹ پر قابض ہے۔سال 2014 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں اس نشست پر پارٹی کے امید وار عبد الرحمان ویری نے 23 ہزار 5 سو 81 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ سال 2002 اور 2008 میں بھی اس سیٹ پر کامیابی ویری کو ہی نصیب ہوئی۔پارٹی کا ماننا ہے کہ اس سیٹ پر پی ڈی پی کا ایک روایتی ووٹ بینک ہے جو گذشتہ دو دہائی کے دوران اس علاقے میں پارٹی کی طرف سے کئے جانے والے تعمیراتی کاموں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔التجا مفتی خود بجبہاڑہ کو پارٹی کا گڑھ نہیں بلکہ گھر گردانتی ہیں۔
ان کا ‘ایکس پر ایک پوسٹ میں کہنا ہے: ‘بجبہاڑہ پی ڈی پی محض گڑھ نہیں ہے بلکہ گھر ہے۔بجبہاڑہ نشست کے نیشنل کانفرنس کے امید وار ڈاکٹر بشیر احمد ویری کا کہنا ہے کہ اب کی بار اس نشست پر ہماری کارکردگی بہت اچھی ہوگی۔انہوں نے کہا: ‘اس بار نیشنل کانفرنس کی کار کردگی اچھی ہوگی کیونکہ اب پی ڈی پی کے چہرے سے نقاب اٹھ گیا ہے اس پارٹی نے لوگوں کو طرح طرح کے دھوکے دئے۔
ان کا کہنا تھا: ‘سال 2014 میں لوگوں سے یہ کہہ ووٹ حاصل کئے کہ اگر بی جے پی اور آر ایس ایس کو دور رکھنا ہے ہمیں ووٹ دیں اور لوگوں نے بھی ووٹ دئے لیکن بعد میں اس پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ ہی الائنس کیا۔ ویری نے کہا: ‘محبوبہ مفتی نے کبھی خاندانی راج ہٹانے کی باتیں کیں، کبھی فوجی انخلا تو کبھی سیلف رول کی باتیں کیں لیکن جب موقع ملا تو اپنے نزدیکی رشتہ داروں یہاں تک اپنے بھائی کو فلموں کی دنیا سے اٹھا کر یہاں وزیر بنا دیا۔انہوں نے کہا: ‘آج موقع ملا تو پارٹی کے وفا دار لیڈر کو بھگا کر اپنی بیٹی کو منڈیٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا: ‘میرے والد نے پی ڈی پی کے بانی کو یہاں کبھی ٹکنے نہیں دیا لیکن نوے کی دہائی میں ملی ٹنسی کے سہارے پر ہمارے ورکروں کو دبایا گیا۔
طارق احمد نامی ایک سیاسی تجزیہ کار کا ماننا ہے: ‘بجبہاڑہ نشست کا نام سن کر ہی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیٹ مفتی خاندان کی ہے سال 1996 سے وہ اس سیٹ پر لگاتار کامیابی درج کر رہے ہیں تاہم گذشتہ برسوں سے اس حلقے پر نیشنل کانفرنس بھی محنت کر رہا ہے جس کی وجہ سے اس کا بھی اثر و نفوذ بڑھ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نشست پر ہونے والے انتخابات میں انتہائی دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
بجبہاڑہ اسمبلی حلقہ انتخاب اننت ناگ – راجوری لوک سبھا انتخاب کا حصہ ہے گرچہ اس لوک سبھا نشست سے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے اس خاندانی حلقے سے ووٹوں میں برتری حاصل کی۔اس حلقے پر انہوں نے 20 ہزار 7 92 ووٹ حاصل کئے جبکہ نیشنل کانفرنس کے امید وار نے 17 ہزار 6 سو 98 ووٹ حاصل کئے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ 36 سالہ التجا مفتی، جنہوں نے لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی والدہ کے لئے زبردست انتخابی مہم چلائی گرچہ وہ ثمر آور ثابت نہ ہوسکی، کے لئے اسمبلی انتخابات میں ووٹروں کو مائل کرنا ایک امتحان ہوگا جس کے نتائج ان کے سیاسی کیرئر پر کافی حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں۔