ہرفرد سالانہ اوسطاً2ہزار کی دوائی کھاتا ہے، تجارت بے لگام اور غیر منضبط
پرویز احمد
سرینگر //مٹھائیوں کی طرح از خود دوا ئیاںکھانے اور ڈاکٹروں کی جانب سے بے تحا شا ادویات لکھنے کے رجحان نے جموںو کشمیر کو ایک بہت بڑی ڈرگ منڈی میں تبدیل کردیا ہے جہاں ہر فرد اوسطاً سال میں 2ہزار روپے کی دوائی کھاتا ہے اور ہر سال اس یونین ٹریٹری میں 3000کروڑ روپے مالیت کے ادویات کی کھپت ہوتی ہے ۔صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ ہم نے ادویات کی کھپت میں اپنے سے کئی گنا بڑی ریاستوں جیسے اتر پردیش اور مہاراشٹرا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
3ہزار کروڑ سالانہ
جموں و کشمیر میں مختلف بیماریوں کے پھیلائو ، عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ، ازخود دوائیاں کھانے کی چلن نے ادویات کے کاروبار میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ کردہاہے اور جموں و کشمیر میں آبادی کے لحاظ سے بہت بڑیریاستوں مہاراشٹرا اور اتر پردیش سے کہیں زیادہ ادویات کا استعمال ہورہا ہے۔ جموں و کشمیر میں ادویات کے کاروبار پر نظر گذر رکھنے کیلئے ذمہ دار محکمہ ڈرگ اینڈ فوڈ کنٹرول آرگنازیشن کے سینئر افسران کا مانناہے کہ جموں و کشمیر میں شوگر ، بلڈ پریشر اور دیگر غیر متعدی بیماریوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ازخود دوائی کھانے کی عادت پڑ گئی ہے اور اس کی وجہ سے ادویات کے بارو بار میں بھی سالانہ بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ محکمہ ڈرگ کنٹرول کے سینئر حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ جموں و کشمیر میں 3000کروڑ روپے پر پھیلے ادویات کے کاروبار میں سے 350کروڑ روپے کی وہ ادویات بھی شامل ہیںجنہیں سالانہ جموں و کشمیر سے در آمد کیاجاتی ہے۔ برآمد کی جانے والی ادویات میں آیورویدک ادویات کے علاوہ بنڈیج ،کاٹن اور پیرا سیٹامول اوردیگر ادویات شامل ہیں۔اُن کا کہناتھا’’کشمیر کے ہر گھر میں ادویات کے ڈھیر لگے ہیں اور جو لوگ اپنے آپ کو ٹھیک تصور کرتے ہیں ،وہ بھی از خود ادویات لینے سے گریز نہیں کرتے ہیں‘‘۔انہوںنے ایک جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جموں و کشمیر میںہر فرد سالانہ تقریباً 2ہزار روپے کی دوائی کھاتا ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں یہ تجارت کافی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ یہاں لوگ از خود دوائیاں کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سماج میں خود دوائی کھانا چلن بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے یہ کاروبار کافی بڑھ گیا ہے۔مذکورہ افسر نے کہا ’’ یہ کاروبار بہت زیادہ ہے جو سماج کیلئے لمحہ فکریہ ہے‘‘۔
دوافروش کہتے ہیں
سرینگر کمسٹس اینڈ ڈسٹربیوٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالاحد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ یہ بہت بڑا کاروبار ہے اور اس کا مکمل اندازہ ناممکن ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’ صرف سرینگر میں کل 2700دوا فروش اور ڈسٹریبیوٹر رجسٹرہیں جن میں سے 1600ہماری ایسوسی ایشن کے ساتھ جڑے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ایسوسی ایشن کے ساتھ جڑے ممبران ماہانہ 65کروڑ روپے کی تجارت کرتے ہیں جو سالانہ 780کرروڑ روپے بنتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر1100دوا فروش و ڈسٹری بیوٹر بھی اسی لحاظ سے یہ کاروبار کرتے ہونگے ۔عبدالاحد نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ پرائیوٹ ہسپتالوں اور نجی کلنک چلانے والے ڈاکٹروں نے بھی اپنی کمپنیاں کھول رکھی ہے جو صرف اپنی ہی کمپنی کی دوائی لکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے تجارت کا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اب ہر ایک ڈاکٹر نے اپنی دو چار کمپنیاں کھول رکھی ہیں اور وہ صرف اپنی کمپنیوں کے ہی ادویات لکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود دوائیاں کھاتی ہے اور ایسی صورت میں کسی کے پاس بھی اس تجارت کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہوسکتے ہیں تاہم محتاط انداز ہ کے مطابق یہ ہزاروں کروڑ روپے ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی کروڑوں روپے مالیت کی ادویات کا استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجارت ہرگذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
بے لگام تجارت
کشمیر پرائیوٹ ہاسپٹلز اور ڈائیگوناسٹک سینٹرز ایسوسی ایشن کے صدر عمر نےاس ضمن میں بتایا ’’پہلے یہ کاروبار 800کروڑ پر مشتمل تھا لیکن اب یہ کم ازکم 2000کروڑ روپے پار کرچکا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کاروبار کی اصل مالیت جاننا مشکل ہے کیونکہ اب ہر کوئی نجی کلنک چلاتاہے اور ہر کوئی اپنی دوائی کا برانڈ بناتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجارت بے لگام ہے اور ان پر کسی سرکاری ادارے کی کوئی نظر گذر نہیں ہے۔ عمر نے بتایا کہ اس وجہ سے اس تجارت کے صحیح و اصل اعداد و شمار کسی کے پاس موجود نہیں ہیں ۔