سرینگر// حریت (ع) چیرمین میرواعظ عمر فاروق جنہیں ریاستی انتظامیہ نے گزشتہ تین ہفتوں سے زایدعرصہ سے مسلسل اپنی رہائش گاہ میں نظر بند کرکے انکی پر امن دینی و سیاسی سرگرمیوں اور گزشتہ چار جمعہ سے لگاتار نماز جمعہ کی ادائیگی پر قدغن عائد کردی ہے نے مرکزی جامع مسجد سرینگر میں چوتھے جمعہ کو بھی نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی اور شہر خاص کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کے لگاتار نفاذ، سید علی گیلانی کی مسلسل خانہ نظر بندی اور محمد یاسین ملک کو سرینگر سنٹرل جیل میں مقید کئے جانے کو تاناشاہی رویوں سے عبارت کارروائی قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ ریاستی حکمران کشمیری عوام کے جذبہ مزاحمت کو دبانے اور زیر کرنے کےلئے ہر غیر جمہوری اور غیر اخلاقی حربہ بروئے کار لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکمرانوں کی جمہورت پسندی کے دعوے نہ صرف کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں بلکہ اس قسم کے طرز عمل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ریاست کے موجودہ حکمران کشمیر میں آر ایس ایس کے ایجنڈے کو عملانے اور ان کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں جو یہاں کے عوام کی جائز آواز کو طاقت اور تشدد کے بل پر دبانے کےلئے معتصبانہ اور انتقام گیرانہ رویوں سے کام لے رہے ہےں۔ میرواعظ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل António Guterres کے حالیہ بیان جس میںبقول اس کے ترجمان کے انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بامعنی مذاکراتی عمل پر زور دیا ہے کو حوصلہ افزاءقرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل حکومت چین(China) نے بھی دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے جس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کو نہ صرف شدت کےساتھ محسوس کیا جارہا ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کو پورے جنوبی ایشائی خطے اور عالمی امن و استحکام کےلئے ناگزیر سمجھا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومت ہندوستان اس مسئلے کے حل کے حوالے سے ہمیشہ غیر حقیقت پسندی اور بہانہ سازی سے عبارت سیاست کاری سے کام لیتی آ رہی ہے۔ جب اس مسئلے کے حل کے ضمن میں عالمی برادری کا اصرار اور دباﺅ بڑھ جاتا ہے توہندوستان کے حکمران اس مسئلے کوپاکستان کیساتھ دوطرفہ مذاکرات کی بنیاد پر حل کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور جب دباﺅ کم ہو جاتا ہے تو نہ صرف مذکرات سے مکر جاتے ہیں بلکہ اس مسئلے کو اپنا اندرونی مسئلہ قرار دے کرروایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہےں۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیرکے اندر اور سرحدوں پر موجودہ کشیدہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس مسئلے کو حیلے بہانوں سے سرد خانے کے نذر کرنے کی کوششوں کے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کےلئے سنجیدگی اور سیاسی جرائت مندی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ اس مسئلے کی وجہ سے اس پورے خطے کو لاحق خطرات کو ٹالا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ہندوستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے ضمن میں معاندانہ اور غیر حقیقت پسندانہ طرز سے گریز کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کےلئے ایک بامعنی مذکراتی عمل کا آغاز کرے تاکہ اس خطے میں موجود پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایا جاسکے۔