سرینگر//جامع مسجد سرینگر کو مسلسل دوسرے ہفتے نمازیوں کیلئے جمعہ کے متبرک موقعہ پر سیل کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اے آئی پی سربراہ اور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید نے پولیس اور سیول انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ سنگ پریوار اور دیگر بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے بالائی ورکروں کی طرح کام کر رہے ہیں۔سی اےن اےس کو موصولہ بیان میں انجینئر رشید نے کہا کہ جہاں ایک طرف دلی سے لیکر سرینگر تک ہر کوئی یاتریوں کی آﺅ بھگت اور حفاظت میں لگا ہوا ہے وہاں ریاست کے اپنے شہریوں کو مذہبی حقوق تک سے بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت محروم رکھا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ©”یہ کسقدر مضحکہ خیز بات ہے کہ یاترا پر حملے کے باعث سات یاتریوں کی بیہیمانہ ہلاکت کے باوجود نہ صرف یاترا زور و شور سے جاری ہے بلکہ ساری انتظامیہ کے پاس جیسے یاترا کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہے جبکہ اس کے بر عکس اکثریتی طبقہ نہ سرکار سے جامعہ مسجد میں نماز کے انعقاد کیلئے کسی سیکورٹی کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی وہاں نمازیوںکو کسی طرح کا کوئی خطرہ درپیش ہے لیکن اس کے با وجود انہیں مذہبی فریضہ ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ دلی کی پشت پناہی والی انتظامیہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات کوصرف اس لئے مجروح کر رہی ہے تاکہ لوگ رد عمل میں احتجاج کریں اور سرکاری پولیس اور فوج کو ان پر گولیاں چلانے اور دہشت مچانے کا جواز مل سکے۔ محبوبہ مفتی کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ آخر عمر رسیدہ حریت رہنما سعید علی شاہ گیلانی ریاست کے مذہبی پیشوا میر واعظ مولوی عمر فاروق کو کیوں اپنے گھروں میں نظر بند رکھا جا رہا ہے اور ساتھ ہی آسیہ اندرابی کا کیا قصور ہے کہ رات دن عورت ذات کی عزت و توقیر کی بات کرنے والے انہیں کشمیر کے بجائے جموں کی تپتی گرمی میں اذیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں“۔ انجینئر رشید نے پولیس کی طرف سے امر ناتھ یاتریوں پر حملے کی تحقیقات کے متعلق خصوصی تحقیقاتی ٹیم(SIT)بنائے جانے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر صرف سیاسی وجوہات کی بناءپر کشمیری لیڈروں کو NIAکے ذریعے تنگ طلب کیا جا رہا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ امر ناتھ یاتریوں پر حملے کی تحقیقات کم از کم NIAکو نہیں سونپی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا ”اگر چہ مناسب رہتا کہ مذکورہ سانحہ کی کسی بین الاقوامی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کی جاتی لیکن نئی دلی اس کیلئے کبھی تیار نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے ہی عیبوں سے پردہ اٹھانے کی حماقت نہیں کر سکتی۔ SITکا قیام اس لئے بھی مضحکہ خیز ہے کہ جہاں عسکری تنظیموں نے متعلقہ واقعہ سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کیا ہے وہاں عام لوگوں سے لیکر صاحب الرائے اشخاص کی شک کی انگلیاں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف جاتی ہیں، ایسے میں مشتبہ لوگوں سے ہی واقعہ کی تحقیقات کرانا نہ صرف بے معنیٰ ہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف فعل ہے ©“۔