۸ ؍مارچ کو ہر سال خواتین کے حقوق اور معاشرے میں اُن کی سماجی، سیاسی، تعلیمی و فلاحی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ (International Womens Day) منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر میں سرکاری و پرائیویٹ سطح پر مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے جن میں بنت حوا کے مسائل اور مصائب اُجاگر کئے جاتے ہیں اورسماجی، سیاسی، تعلیمی اور فلاحی شعبوں سے وابستہ معاشرے کی معروف ترین خواتین کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ اِن تقریبات میں طبقۂ نسواں کے حقوق کی حفاظت اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنے کا عزم بالجزم باندھاجاتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا میں عورتوں پر روا رکھے جارہے استحصال اور ظلم و تشدد پر تقاریر اور مقالے پیش کیے جاتے ہیں۔ان تقریبات کے علاوہ دنیا کے چیدہ چیدہ اخبارات میں خواتین کے موضوع پر خصوصی گوشے اور رسالے وومنز شمارے شائع کرتے ہیں، مختلف سماجی ، ثقافتی اور غیر سرکاری جماعتیں (NGO's) عورتوں کے حق میں ریلیوں اور خصوصی مہمات (Compaigns) کا انعقاد کرتی ہیں اورقومی و بین الاقوامی ٹی وی چینلوں پر ـ ٹاک شوز اور بحث و مباحثے بھی اس دن اسپیشل نشریات کا حصہ ہو تے ہیں۔
’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ کے حوالے سے پہلا یومِ خواتین 28فروری1909 ء کو امریکی سوشلسٹ پارٹی نے امریکہ کے شہر نیویارک میں منعقد کیا تھا۔ بعد ازاں 1910ء میں ڈین مارک کے شہر کوپن ہیگن میں خواتین کی ایک بین الاقوامی کانفرنس (International Womens Conference)کا اہتمام کیا گیا جس میں دنیا کے 17ممالک کی تقریباً 100نمائندہ خواتین نے شرکت کی۔ اس کانفر س میں عورتوں کے حقِ رائے دہی (Right to Vote) کی حمایت میں قرار داد منظور کی گئی۔ اِس کانفرنس کے اثرات دور رس ثابت ہوئے اور رفتہ رفتہ آسٹریا، ڈین مارک، جرمنی اور سویزر لینڈ جیسے ممالک میں بھی خواتین کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگی۔ نیز عورتوں کو حقِ رائے دہی کے علاوہ نوکری،دولت کمانے اورپیشہ وارانہ تربیت (Vocational Training) کے حقوق حاصل ہونے کے لیے صدائیں گونجنے لگیں۔ ڈنمارک میں منعقد شدہ اِسی کانفرنس میں طے پایا کہ ہر سال مارچ کی ۸ تاریخ کو ’’ یومِ خواتین‘‘ منایا جائے گا۔1917ء کے انقلابِ روس میں جب وہاں عورتوںکو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگیا تو روس میں ۸ ؍مارچ کو قومی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔1917ء سے 1975ء تک کے اِس عرصے میں مختلف ممالک میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ طاقتیں اِس یوم کا خصوصی سے اہتمام کرنے لگیں۔ اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس ’’یومِ خواتین‘‘ کو دنیا میں متعارف کرانے میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کارفرما تھے جسے بعد ازاں 1975 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مستعار لے کر ہر سال مارچ کی8 تاریخ کو عالمی سطح پر ’’ یومِ خواتین‘‘ منائے جانے کا اعلان کیا۔ تب سے ہر سال ’’Gender Equality ‘‘ کے ایک مخصوص نعرے کے تحت دنیا کے مختلف ممالک میں’’ یومِ خواتین‘‘ کا اہتمام تزک واحتشام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ کے اِس ایونٹ کے لیے ہر سال ایک موضوع(Theme)کا انتخاب کیا جاتاہے۔ سال 2018 کے لیے #Pressfor Progress کے موضوع کا انتخاب ہوا ہے۔
’’ یومِ خواتین‘‘ سے جُڑی ابتدائی معلومات کے بعد اس بات کا علم حاصل کرنا ضروری ہے کہ آخر وہ کیا محرکات تھے کہ جنہوں نے یومِ خواتین کو منانے کی ضرورت کا دنای کو احساس دلایا۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں جب نشاۃ ثانیہ کا دور چل رہا تھا اور مذہب (عیسائیت) کے خلاف بغاوت کے آثار رونما ہونے لگے تھے تو مغربی خواتین میں بھی مذہب کے خلاف اظہارِ خیال کرنے کے جراثیم پنپنے لگے اور رفتہ رفتہ جب اُسے اظہارِ خیال کی آزادی میسر ہوئی تووہ مذہب کی حدود وقیود سے باغی ہو کر اور مسلمہ سماجی روایات سے انحراف کر کے معاشرے میں اپنے لئے مردوں کے ٹکر کا درجہ اور مقام ڈھونڈنے لگی۔اس ضمن میں عورتوں نے خود پر ہو رہے ظلم و زیادتی کی نشاندہی کی اور سماج میں اپنے حقوق، ضروریات اور ترجیحات کا بھی تعین کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تحرک سے واقعی آج عورت ذات روبۂ ترقی ہے؟ کیا اب اُسے وہ تمام معاشی و معاشرتی حقوق حاصل ہوگئے ہیں کہ جن سے محرومی کا یہ دُکھڑا لے کر وہ سربازار آئی تھی؟ کیا عورت خود کفیل بن گئی ہے اور کیا اب اُس کے لئے کسی مرد کے سہارے کی ضرورت باقی نہیں رہی ؟ کیا واقعی عورت خود کا ایک الگ وجود اور تشخص قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟ بالفاظِ دیگر کیا عورت مردوں اور عورتوں کے مابین کے اس فرضی مقابلے میں خواتین مردوں سے آگے نکل گئی ہیں ؟ ان تمام سوالات کے جوابات کھوجنے سے جو معلومات ہمیں حاصل ہوتی ہیں، وہ انتہائی بھیانک اور چونکا دینے والی ہیں۔ مثلاًآج پوری جدید دنیا میں حوا کی بیٹی مظلومی و مقہوری کی زندگی بسر کر رہی ہے۔یہ جنسی تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔ اسے معاشرے میں جنسی لذت حاصل کرنے کا ایک آلہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بدن سے کپڑے کم کر کے مردوں کو رجھانے کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی بدولت خواتین میں خودکشی کا منفی رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔آج عورت کو فحاشیت و عریانیت کے اڈوں کی زینت بنایا گیا ہے۔ خواتین کو جسم فروشی اور منشیات کی لت میں کثرت سے پڑی ہوئی ہیں، نتیجتاً اِن کا سماجی رتبہ، عزت ِنفس اور دماغی توازن سب داؤ پر لگاہوا ہے۔ عورتوںکی عصمت دری اور قتل کی واردتوں میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے،اور اب تو معصوم اور ننھی کلیوں کی آبرو ریزی کر کے اُنہیں قتل کرنے جیسے گھنائونے واقعات بھی بے تحاشہ رونما ہو رہے ہیں۔ انسانیت کو شرمسار کردینے والے ایسے واقعات اب یورپ کے علاوہ ایشائی ممالک میں بھی ہو رہے ہیں(قصور پاکستان کی زینب اور کھٹوعہ جموں کی آصفہ سے جُڑے تازہ سانحات اس سلسلہ میں چشم کشا ہیں)۔ اہل مغرب کے ہوس پرست اور شہوت زدہ فحش کاروں نے عورتوں کو آزادی اور مساوات کے نام پر مختلف ذرائع و سائل سے آزاد خیالی ( یاروشن خیالی) کی جو پٹی پڑھائی ہے، آج ا س کے منفی اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ خواتین گھریلو امورات میں قدرے کم دلچسپی لینے لگی ہیں۔ نتیجتاً خاندانی نظام درہم برہم ہوکررہ گیاہے۔ زوجین کے مابین افہام و تفہیم کا فقدان پیدا ہوا ہے اور بچے بچیاں اخلاقی تربیت سے محروم ہو رہے ۔ عورت اپنے غیر فطری حقوق کی فکر میں نہ جانے اپنے کتنے فرائض بھول گئی ہے۔آج اُسے گھریلوذمہ داریاں بوجھ محسوس ہونے لگی ہیں۔ خود کو اپنے خاندان سے دور کر کے یہ خواتین دراصل خاندانی نظام کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ مغرب میں بوڑھے والدین کو ’’ اولڈ ایج سینٹرس‘‘ میںبھیج دیا جاتا ہے تاکہ ان کی اپنی اولادیں اپنے بوڑھے والدین کی حاجتوں اور ضرورتوں سے خود کو الگ کرکے آرام سے ایک پُر تعیش زندگی گزار سکیں۔ اولڈ ایج ہومز کے رحجانات اب یورپ کے علاوہ دیگر ایشائی میں بھی پھیلنے لگے ہیں۔جو کام مردوں کے تھے، اُن میں عورت نے مداخلت کرکے اُن کاموں کا بیڑا غرق کر دیااور جو عورتوں کے کرنے کے کام تھے،اُن سے پہلو تہی اختیار کر کے عورت نے دراصل خاندانی نظام کی بیخ کنی کی ہے۔ بقول شاعر ؎
کہو ں کس سے کہ ہے سب کار اُلٹا
ہم اُلٹے، بات اُلٹی، یار اُلٹا
اب ایسی صورت میں ’’ عالمی یومِ خواتین‘‘ ( اصل میں خواتین کے نام نہادجشن اور آزادی کے اعلان کا دن) کے نام سے ایک مخصوص دن کی تُک سمجھ میں نہیں آتی جب کہ انسنای فطرت اور انسانی تہذیب وتمدن کا تقاضا یہ ہے کہ عورت کو ایک مخصوص دن بلکہ عمر بھر کے لئے عزت وآبرو اور صنفی مساوات سے بہرہ ور کیا جائے۔خواتین کے حقوق وترقی کا غلغلہ کرنے والا یہ دن فی الحقیقت خواتین سے جُڑے خطرات و خدشات کا قلع قمع کرنے میں کلی طور ناکام ہوا ہے۔ ایک منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باجود بھی آخراِن مسائل کے سدِ باب کے امکانات کیوں نظر نہیں آتے؟ تحقیق وتجزیوں کے مطابق تو خواتین سے جُڑے اِن مسائل میں روز افزوں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ حقیقت دراصل یہ ہے کہ ۸ مارچ کا یہ دن ایک ’’ فریب اور ڈھونگ‘‘سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ۸؍ مارچ کے معتقدین و منتظمین ہی آج خواتین برادری کے سب سے بڑے دشمن ہیں جنھوں نے خواتین کومن گھڑت اور مصنوعی اسباق پڑھائے کہ ’’ وہ سماج کا ایک مظلوم ترین طبقہ ہے‘‘ ’’ اِن کے حقوق غصب کیے گئے ہیں‘‘ ’’ اِن کو گھر کی چار دیواری میں محصور کیا گیا ہے‘‘ ’’ اِنھیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے حق سے محروم رکھا گیاہے‘‘ ’’ اِنھیں معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کا بھرپور حق حاصل ہے‘‘ وغیرہ۔ جھوٹ، افترأ ، کجی اور تعصب پر مبنی یہ اسباق اس قدرزہریلے اور فاسد ثابت ہوئے ہیں کہ یہ نسلوں کو فکری، روحانی اور اخلاقی سطح پر پستی کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے اور بن رہے ہیں۔
عورت دراصل مرد کے مقابلے میں ایک الگ جسمانی ساخت اور ذہنی صلاحیت رکھتی ہے۔ انھیں مردوں کے مدِ مقابل کھڑا کرنا دراصل قانون فطرت کے ساتھ ایک کھلی بغاوت ہے۔ سائنسی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ عورتوں کی نفسیاتی و ذہنی ساخت و صلاحیتیں مردوں کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ عورت کا مردوں کے مقابلے میں جسمانی و ذہنی اعتبار سے الگ حیثیت رکھنے کے ہرگز یہ معنی نہیں نکلتے کہ عورت ذات مردوں سے کم تر اور ہیچ ہے۔ اسلام کی رو سے مردوں کو عورتوں پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ صناع ِعالم نے عورت اور مرد کو ایک ہی مٹی سے وجود بخش کراِنھیں یکساں درجہ دیا ہے۔
دنیا میں خواتین کے حقوق اور مقام ومرتبہ کے حوالے سے سب سے اہم پیش رفت اسلام نے ہی کی ہے۔محسن ِانسانیت ﷺنے خواتین کو نہ صرف احترام کی نگاہ سے دیکھابلکہ سماج میں اُن کے لیے اعلیٰ درجے کے حقوق بھی متعین کیے اور عورتوں کے وجود کو ایک کامیاب خاندان کے لیے سب سے اہم قرار دیا۔آج شرق و غرب میںعورتیں اسلام کا مطالعہ کرکے ان تعلیمات و ہدایات کی آفاقی حقیقت اور ابدیت وعملیت سے متاثر ہو کرزمانے کی سختیوں کو برداشت کرنے کے باوجود اسلام کے دائرے میںجوق در جوق شامل ہو رہی ہیں۔مریم جمیلہ،ہادیہ، یووان ریڈلی، لارین بوتھ اور ایسی ہی ہزاروں نومسلم خواتین اس کی زندہ وجاوید مثالیں ہیں۔ یہ ایسی خواتین ہیں کہ جنھوں نے صدقِ دل سے اسلام کا مطالعہ کیا اور جب اسلام کی آفاقی تعلیمات نے اِن کے اذہان و قلوب کو مسخر کیا تو فوراً اپنے اسلام لانے کا اعلان کر دیا۔ آج کی تاریخ میں اگرچہ اسلام کو بد نام کرنے اور اِسے دہشت گردی سے جوڑنے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جارہی ہیں لیکن دشمنانِ اسلام جس قدر اِسلام کی مخالفت میں تحریکیں چلاتے اور نوبہ نو پروپیگنڈے کرتے ہیں،اُسی قدر شرق غرب کے مردوزن (متلاشیانِ حق )اسلام کی جانب آرہے ہیں اور خود کو سپردِ اسلام کررہے ہیں کیونکہ یہی وہ دین ہے جس میں نہ عورت کی خوش حالی ا ور آزادی سے کھلواڑ کیا گیا ہے نہ مرد کی قوامیت سے کوئی سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ اس دین میں عورت کو اپنے فطری وظائف کے اندر اندرتمام حقوق ومراعات سے نوازا گیا ہے کہ اسے کہیں بھی یہ احسا س نہیں ہوتا کہ وہ اسلامی معاشرے کا جزو بن کر دینی ، علمی ، تہذیبی، تجارتی ، ثقافتی ، اور خاندانی نظام میں دوسرے درجے یا حاشیہ پر ہے بلکہ وہ فخر اور شکر کے جذبات کے ساتھ بہ حیثیت ماں بہن بیٹی اور شریک حیات پورے خانوادے کی ملکہ اور کار کشا ہوتی ہے ۔ سی این این، بی بی سی اور وِکی پیڈیا کی حالیہ رپورٹس کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں اسلام قبول کرنے والوںکی شرح میں خواتین کی شرح ہی سب سے زیادہ ہے کیونکہ اسلام اُسے مردوں کے لئے جنت کی ضمانت اور ان سے بہتر سلوک کو بہشتی نعمتوں کا دروازہ قرار دیاہے۔
حقوقِ نسواں کے چمپیئن اور عالمی یومِ خواتین‘‘ کے منتظمین کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جس عورت کو وہ تحفظ اور حقوق دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہی عورت آج ان کی ناک کے نیچے نوبہ نو مسائل، اُلجھنوں اورپریشانیوں میں اس قدر غرق کی جا چکی ہے گویا کل جہان میںایک آتش سی سلگ رہی ہے جس میں بنت حوا کا وجود سر تا پیر جھلس رہا ہے اور کوئی بھی فردبشر اُسے بچانے کے لئے سامنے نہیں آتا۔ ا لٹااس آگ کو مزید ہوا دے کر بھڑکا یاجارہاہے کہیں سیدھے حوا کی بیٹی کی عزت لوٹ کر ، کہیں اسے خالی سبز باغ دکھا کر ، کہیں اُسے وومنز ایمپاورمنٹ کے نام سے خاتون ِ خانہ کے بجائے شمع ِ محفل بناکر ، کہیں اسے کھٹوعہ کی مظلوم بیٹی آصفہ بناکر، کہیں دلی کی دامنی کی طرح اسے نوچ کر ، کہیں قصور پاکستان کی مظلومہ زینب بناکر ، کہیں شوپیان کی نیلوفر اور آسیہ جیسے مقتولین بناکر ، کہیں کنن پوش پورہ اور بدراپائین کیاذیت ناک اور شرمسار کر نے والی داستانیں رقم کر کے ۔ بایں ہمہ اگر ہم آج ۸ ؍ مارچ کے دن خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ انصاف کی دہائیاں دینے والی ہر عورت کی چیخ وپکار سننے کی ہمت ہی نہیں رکھتے بلکہ اسے اُنصاف دلانے کے لئے کمر بستہ ہونے کا بے لوث انسانی اور مردانہ جذبہ بھی رکھتے ہیں تو یومِ خواتین کے روز جھوٹے نعروں اور بے معنی قراردادوں کے فریب سے باہر آکر عمل اور پیہم عمل کا عہد کیجئے اور اپنے ضمیر سے پکا وعدہ کیجئے کہ اب آصفہ کو انصاف دلایا جائے گا، اب ہمارے یہاں کوئی جہیزی موت یا ہلاکت نہ ہوگی ، اب غریب دوشیزاؤں کو اپنے بر کے انتظار میں بڑھاپے کی سرحد پار نہ کر نا ہوگی ، اب گھروں میں بہو بیٹی اور ساس کے درمیان میٹھے رشتے استوار ہوں گے ،اب کسی ماں بہن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والی کی آنکھ پھوڑ دی جائے گی،ا ب مسافر بس میں سفر کے دوران خواتین کو عزت و احترام سے ہر جوان اپنی سیٹ کی پیش کش اس خیال سے کر ے گا کہ اس عمل سے اللہ اور رسولؐ کی خوشنودی ملے گی۔ بس اسی صورت میں ہم ’’ یوم خواتین‘‘ جیسے ایونٹس کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’ یومِ خواتین‘‘کے مغربی دجل و فریب کے مایا جال سے باہر آکر اپنی ملت کی مقدس ماوؤں اور محترم بیٹیوںکی تحفظ اور تکریم کا بیڑہ اُٹھائیں۔