سرینگر // وادی کشمیرمیں بادام کی پیداوار میں کمی کے رجحان کے بیچ حکومت نے اٹلی سے اعلیٰ اقسام کے بادام کی نئی قسم کے پودے لا کر اُگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جبکہ اخروٹ اور سیب کو بھی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔کشمیر کو بھارت کی میوہ صنعت کا منبع کہا جاتا ہے اوربادام کو میوہ کا بادشاہ کہا جاتاہے ۔ بادام بھارت میں صرف کشمیر میں پائے جاتے ہیں۔لیکن حالیہ چند برسوں سے بادام کی صنعت ختم ہو تی جا رہی ہے۔ اس کا انداہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال قبل تک وادی میں 16ہزار ہیکٹر اراضی پر بادام کے درخت ہوا کرتے تھے لیکن اب صرف 5464ہیکٹر پر بادا م کے درخت پائے جاتے ہیں۔پہلے 10ہزار میٹرک ٹن تک بادام کی فصل حاصل کی جاتی تھی لیکن یہ گھٹ کر اب صرف7790میٹرک ٹن تک رہ گئی ہے۔ 2015میں وادی میں بڑے پیمانے پر بادام کے درخت کاٹے گئے اور بادام کی ایک بڑی اراضی ختم کی گئی۔ اس اراضی پر یا تو سیب کے درخت لگائے گئے یا پھر تعمیرات کھڑا کی گئیں۔سرینگر گاندربل اور بڈگام میں 48فیصد بادام کی اراضی کو ختم کیا گیا ہے اور اب ان تین اضلاع میںبادام کی صرف 58میٹرک ٹن پیداوار نکل رہی ہے۔وادی میں بادام کے درخت دس سال قبل 15350ہیکٹر زمین پر پائے جاتے تھے اور یہ صورتحال 2014تک رہی لیکن بعد میں یہ سکڑتی گئی ۔یہی حال اخروٹ کے درختوں کا بھی ہے ۔اخروٹ کے درختوں کی کٹائی کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں اخروٹ کا اٹلی اور چلی کے اخروٹوں کے ساتھ مقابلہ نہ کر پانے کے نتیجے میں محکمہ باغبانی نے کئی ایک اقدامات اٹھائے ہیں ۔باغبانی شعبہ کونئی جہت دینے کیلئے محکمہ نے یورپی ممالک تھائی لینڈ اور اٹلی سے اعلیٰ کوالٹی کے پودے لا کر ان کی شجرکاری کی ہے جس سے کسانوں اور کاشتکاروں کی آمدن میں کئی گناہ کا اضافہ ہوگا ۔محکمہ کا دعویٰ ہے کہ روایتی کاشتکاری نظام سے ہائی ٹیک کاشتکاری کے نظام میں منتقلی کے ذریعے پھلوں کی فصلوں کی پیداوار خصوصاّـسیب، ناشپاتی ، گلاس ، اخروٹ اور بادام کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔کشمیری اخروٹ جن کی بیرون ریاستوں کی منڈیوں میں زیادہ قیمت ہونے کی وجہ سے اٹلی اور دیگر یورپی ممالک کے اخروٹ کے سامنے ٹک نہیں سکا تھا ۔اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی محکمہ نے اخروٹ کی’ چینڈ لر اس‘ نامی نئی قسم لائی ہے، جو تیار ہونے کے بعد کاشتکاروں میں تقسیم کی جائے گی، جس سے یہاں اخروٹ کی ایک اعلیٰ قسم نکلے گی ۔محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر اعجاز احمد بٹ نے کہا کہ بادام کی فصل کو نئی جہت دینے کی خاطر ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈائون کے دوران محکمہ نے اٹلی سے بادام کی نئی قسم لائی ہے جس سے برف باری اور ہوا سے کوئی بھی نقصان نہیں ہو گا ،کیونکہ اس کے پھول اپریل کے مہینے میں ہی کھلیں گے، جبکہ پُرانے بادام کے پودوں کے پھول 27فروری کو ہی کھلنا شروع ہو جاتے تھے، جنہیں برف باری اور بارشوں سے نقصان ہو جاتا تھا ۔محکمہ باغبانی کے مطابق اس وقت حکام نے 51ہیکٹر رقبہ اعلیٰ اقسام والے پودے لگانے کے دائرے میں لایا ہے ۔تھائی لینڈ سے درآمد شدہ 2.20لاکھ سیب کے کلو نیٹ روٹ اسٹاک کی زینہ پورہ شوپیان میں کامیاب شجر کاری کی گئی ہے ۔جبکہ زکورہ سرینگر میں بھی محکمہ نے لاکھوں اعلیٰ قسم کے پودے لگائے ہیں ۔جموں وکشمیر میں پھیلی مختلف محکمہ جاتی نرسریوں میں 3.5لاکھ کلو نل روٹ سٹاک پودے لگائے گئے ہیں ۔ یاد رہے کہ سیب کے پھلوں کی معیاری پیداوار کو فروغ دینے کے پروگرام کے ایک حصہ کے تحت حکومت نے سال2016.17کے دوران اعلیٰ قسم کے حامل پودے لگانے کی اسکیم متعارف کرائی ہے۔محکمہ کا کہنا ہے کہ اس وقت 5لاکھ مستعفین میں 90فیصد سب سڈی کے حساب سے 3.15لاکھ پودے تقسیم کئے گئے ہیں جس پر 190.59لاکھ رقم خرچ ہوئی ہے ۔معلوم رہے کہ اس وقت جموں وکشمیر میں 7لاکھ کنبے براہ راست باغبانی شعبہ سے جڑے ہیں جو کل آبادی کا 33فیصد حصہ ہے جبکہ باغبانی شعبہ جموں وکشمیر کی جی ڈی پی میں 8سے10فیصد نمایاں حصہ دار ہے۔