اسد مرزا
اگلے سال 2024 میں ہونے والے عام انتخابات بھارت کی سیاست میں مکمل گیم چینجر یعنی کہ سیاسی طور پر ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتے ہیں۔ امکان ظاہر کیے جارہے ہیں کہ 2024ء کے بعد بھارت راشٹرا کی بنیاد بھی رکھی جاسکتی ہے۔ یعنی کہ ایک ہندو ملک، جس کا آغاز صدرِ ہند کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ دعوت نامے کے ذریعے کیا جا چکا ہے۔
اس موضوع پر پہلے ہی حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سوال، جو ہماری فوری توجہ چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں کیا نتیجے سامنے آسکتے ہیں؟ 26 اپوزیشن جماعتوں نے پہلے ہی انڈیا کے نام سے ایک اتحاد قائم کر لیا ہے، جو حکمران بی جے پی، اس کے سرپرست آر ایس ایس اور دائیں بازو کی ہندوتوا تنظیموں کیلئے ایک لفظِ توہین ہے۔پچھلے مہینے ہی ملک کے یوم آزادی کے موقع پر، پی ایم مودی نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ اگلے سال بھی لال قلعہ سے قوم سے خطاب کریں گے۔ یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی یا حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے اگلے انتخابات میں یقینی طور پر جیت کا دعویٰ کیا ہے۔
آئیے تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگلی حکومت بنانے کے لئے وزیر اعظم کے اعتماد کے پیچھے کیا وجہ ہے۔ اس کے لئے ہمیں تھوڑا سا پیچھے 28 مئی 2023 تک جانا پڑے گا۔جب 28 مئی 2023 کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح صدر نے نہیں بلکہ وزیر اعظم نے کیا تو اس پر ایک تنازعہ شروع ہوا، لیکن اس کے ساتھ افتتاحی تقریب کے ایک حصے کے طور پر استعمال ہونے والے سینگول کے بارے میں بھی کافی ہلچل مچی جسے لے کر پی ایم پارلیمان کی نئی بلڈنگ میں داخل ہوئے تھے۔
سینگول تنازعہ کو اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے غیر ضروری طور پر پیدا کیا گیا۔ اگرچہ، سینگول سونے کا چڑھایا ہوا چاندی کا عصا ہے جو اس وقت ہندوستان کے نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں اسپیکر کی کرسی کے قریب نصب ہے۔ اس کی تاریخ 1947 سے پہلے کی ہے، جب جواہر لعل نہرو کو تمل ناڈو میں ایک ہندو خانقاہ، تھروادتھورائی ادھینم مٹھا کے سفیروں نے سینگول پیش کیا تھا۔ اس تقریب کا اس وقت کی عوامی گفتگو پر نہ ہونے کے برابر اثر تھا۔ نہرو کے سینگول اور دیگر سامان الٰہ آباد میوزیم کو عطیہ کیا گیا۔ سیکولر ہندوستان کی طرح کسی کو سینگول کی فکر نہیں تھی۔ ہم نے ہمیشہ ہی ہندو روایات کے مطابق، چراغ جلانے یا ناریل توڑنے سے شروع ہونے والی اچھی ہی سرکاری تقریبات کا مشاہدہ کیا ہے۔
آئیے اب اصل مسئلے پر ان منصوبوں کا تجزیہ اور تشریح کرنے کی کوشش کریں جن کے ذریعے بی جے پی 2024 کے عام انتخابات جیتنے جا رہی ہے۔اس وقت بھارتیہ پارلیمنٹ 788 نشستوں پر مشتمل ہے، جس میں لوک سبھا کی 543 اور راجیہ سبھا کی 245 نشستیں ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں کل 1272نشستیں نصب کی گئی ہیں، لوک سبھا چیمبر میں 888 نشستیں اور راجیہ سبھا کی 384 نشستیں ہیں۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں بیٹھنے کی گنجائش کیوں بڑھائی گئی ہے اور اس وقت ارکان پارلیمنٹ کی کم تعداد کے پیش نظر یہ نشستیں کیسے پْر ہوں گی؟
اب یہاں پر اصلی پینچ آتا ہے، بی جے پی کے قریبی حلقوں سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس 18 ستمبر سے پرانی پارلیمنٹ بلڈنگ میں بلایا گیا ہے، اور 19 ستمبر کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں شفٹ ہو جائے گا۔ اور وہاں نئی عمارت میں بی جے پی حکومت ایک پرانا بل پیش کرے گی، جو 1996 سے پاس نہیں ہوا ہے۔ یہ بل ہے،خواتین کے ریزرویشن کا بل حالانکہ اسے 2010 میں راجیہ سبھا نے پاس کیا تھا۔یہ خواتین کے ریزرویشن بل یا 2008 کا آئین (108 ویں ترمیم) بل ، جو لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے لئے تمام نشستوں کا ایک تہائی ریزرو کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا تعین پارلیمنٹ کی طرف سے تجویز کردہ اتھارٹی کے ذریعے کیا جائے گا۔یہ بل راجیہ سبھا نے 9 مارچ 2010 کو منظور کیا تھا، لیکن لوک سبھا کے اجلاس بل کو پاس کیے بغیر 2014 اور 2019 میں دو بار ختم ہو گئے۔
واضح رہے کہ پرانا بل ختم ہونے کی وجہ سے پیش کیا جانے والا نیا بل پرانے جیسا نہیں ہو سکتا۔ یعنی خواتین اور خاص طور پر پسماندہ طبقات اور ایس سی/ایس ٹی زمرہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ریزرویشن دینے کی تجویز نئے بل میں پیش کی جاسکتی ہے، لیکن نہ تو موجودہ 543 نشستوں میں سے ایک تہائی پر، اور نہ ہی پہلے تجویز کردہ عمل یعنی مختلف علاقوں میں ‘ریزرو سیٹوں’ کے ذریعے۔دراصل ان 280 سیٹوں پر انتخابات نہیں ہوں گے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی خواتین کو لوک سبھا انتخابات میں ان 280 سیٹوں پر جگہ ملے گی، ریاستوں میں سیاسی پارٹیوں کو جو بھی ووٹ ملتا ہے (متناسب نمائندگی) کے تناسب سے۔ اس کے لیے ہر پارٹی کو ترجیح کے لحاظ سے 280 خواتین کی فہرست پیش کرنی ہوگی۔
ریاضت یہ بتائی جا رہی ہے کہ بھلے ہی 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہو جائیں لیکن اس کا ووٹ شیئر 2019 جیسا ہی رہے گا، خواتین کا ریزرویشن حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لائے گا، بشکریہ ان280 ریزرو سیٹوںکے، جس کا اثر آخر کار سیٹوں کی تعداد پر پڑے گا اور راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کی نشستیں بڑھنے کے امکان ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر آر جے ڈی جے ڈی (یو)، ایس پی وغیرہ چاہتے ہیں، وہ ووٹ شیئر کی بنیاد پر اپنی کچھ یا تمام سیٹیں پسماندہ ذات کی خواتین کو دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے بل کی سب سے زیادہ آواز لالو یادو کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور نتیش کمار کی جے ڈی (یو) نے پسماندہ ذات کی خواتین کے مفادات کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کی تھی۔
جس قسم کی منطق پر بات کی جا رہی ہے، اس کے مطابق 1984 کے انتخابات میں، اگرچہ بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ملی تھیں، لیکن ووٹ شیئر کے لحاظ سے وہ کانگریس کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔ کانگریس کا ووٹ شیئر 404 سیٹوں کے ساتھ 49.10 فیصد تھا جبکہ دو سیٹوں کے باوجود بی جے پی کا ووٹ 7.74 فیصد تھا۔ دلیل یہ ہے کہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر خواتین کا ریزرویشن ہوتا تو 1984 میں بی جے پی کے پاس اس سے کہیں زیادہ سیٹیں ہوتیں۔
وہی دلیل جو بی جے پی کی خوشحالی کے تناظر میں دی جارہی ہے وہ کانگریس کو خوش کرنے کیلئے بھی دی جارہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 37.35 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 303 سیٹیں ملی تھیں، جب کہ کانگریس کو 19.49 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہنے کے باوجود صرف 52 سیٹیں ملی تھیں۔ اگر متناسب نمائندگی کے ساتھ خواتین کو ریزرویشن دیا جاتا تو کانگریس کی سیٹیں بڑھ جاتیں اور اسے اپوزیشن لیڈر بننے کا حق بھی مل جاتا۔
آخر میں، صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی نے قبول کرنا شروع کر دیا ہے کہ 2024 میں اس کی سیٹیں نمایاں طور پر کم ہونے والی ہیں لیکن اسے یقین ہے کہ اس کا ووٹ شیئر (کرناٹک کی طرح)پہلے جیسا ہی رہے گا۔ خواتین کے ریزرویشن کے ذریعے یہ طویل عرصے تک حکومت میں واپس آسکتی ہے۔ اور پھر جو کچھ بھی بھارتیت سے متعلق ہے اسے بغیر کسی رکاوٹ کے نافذ کیا جائے گایعنی کہ اگرپارلیمنٹ کے اس خاص اجلاس میں ہندوستان کا نام پوری طریقے سے تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا تو پھر دوبارہ سے نئے نوٹ جاری ہوں گے اور ساتھ ہی آپ کو نئے پاسپورٹ بھی بنوانے پڑیں گے اور اس کا اثر مذہبی اقلیتوں پر ضرور پڑے گا کیونکہ نئے ضوابط کے تحت ان کی اکثریت کو ہوسکتا ہے وہ پاسپورٹ جاری نہیں کیے جائیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔