محمد عزیز گل
ہمارے معاشرے کی معاشی صورت حال کافی زیادہ بگڑ چکی ہے۔ ان دگر دوں معاشی حالات میں بظاہر کمی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے اور اس میں مزید اضافہ یقینی ہے، تعلیم یافتہ بے روز گاروں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور صورت حال سنگین بنتی جارہی ہے۔وقفہ وقفہ کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آتے رہتے ہیں،اْن سے جہاں نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہوتی وہیںبلکہ نوجوان کو اس بات کا بھی احساس دلاتی رہتی ہے کہ وہ ملازمت کے حصول کے لیے دھکے کھانے کے بجائے کوئی کاروبار کریں۔ ملازمت نہ ملنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ ر وز گار کے راستے بند ہوگئے ہیں اور اس کی تلاش میں دیار غیر میں مشقتوں کو برداشت کرنا ہے ، بلکہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی ایک چھوٹے سیکاروبار کی ابتداء کر کے بھی اپنے لیے بہترین حلال رزق کا انتظام کرسکتا ہے۔
اس وقت ایسے لاکھوں نوجوان اسی امید پر اپنی جوانی کا وہ عرصہ جس میں وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں کو ایک سرکاری یا بہترین ملازمت کے چکر میں بیٹھے بیٹھے ضائع کردیتے ہیں۔ ہر سال تعلیمی اداروں سے لاکھوں نوجوان ڈگریاں لے کر فارغ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے سرکاری نوکری بھی اب کافی مشکل ہوگئی ہے۔ آپ اپنے ارد گرد نظر اٹھاکر دیکھیں جو بندہ سرکاری نوکر ہو اور اگر کسی کرپشن وغیرہ میں ملوث نا ہو تو یقین کریں وہ ساری زندگی اپنا اچھا گھر تک بنا نہیں سکتا اور اسی جگہ پر کسی کاروباری پر نظر دوڑائیں تو وہ اچھی خاصی آمدنی کما لیتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی امیر ترین لوگ ہیں وہ تو کاروباری شخصیات ہیں۔
خود کو ضائع ہونے سے بچائیں نا اْمیدی کی چادر اْتار پھنکیں اور کسی چھوٹے سے کاروبار سے آغاز کریں ،مت سوچیں لوگ کیا کہیں گے ،لوگوں کی باتوں پر توجہ نہ دیں ،اپنا رزق حلال کمانا شروع کریں، یقین کریں جب آپ کامیاب ہوجائیں گے تو یہی تنقید کرنے والے آپ کے آگے پیچھے ہوں گے اور آپ کو بہت زیادہ عزت دیں گے۔ کوئی بھی کام شروع کریں، محنت کریں اللہ پر یقین رکھیں اور یہی سوچ رکھیں کہ آپ نے ایک بہت بڑا بزنس مین بننا ہے، برگر، بریانی، جوس، فرنچ فرائز، سموسے، پکوڑے ،چائے،وغیرہ جیسے کئی ایسے چھوٹے کاروبار ہیں، جس میں سرمایہ نسبتاً کم لگتا ہے اور پھر یہی کاروبار آپ کی محنت سے ایک بڑی دکان میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ شہر میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
گھر پر سارا دن فارغ بیٹھ کر گھر والوں سے روزانہ پچاس ،سو ،دو سو روپے لینے اور اْن پر بار بننے سے تو اچھا ہے کہ اپنا حق حلال کاروبارشروع کریں اور اپنی محنت سیاس سے زیادہ رقم اپنے گھر لے کرجائیں، جس سے آپ کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ نہ سوچیں کہ کوئی کام کمتر ہے یامیں اتنا تعلیم یافتہ ہوں اور یہ چھوٹا موٹا کام کروں۔ یاد رکھیں ہر کام کی اپنی اہمیت ہے، کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔آپ اسے اپنی محنت اور لگن سے بلندی تک لے جاسکتے ہیں۔
اس سے قوم کوبھی معاشی لحاظ فائدہ ہوگا اور حکومت پر نوکریوں کا بوجھ نہیں پڑے گا۔لڑکیاں بھی گھر بیٹھ کر کاروبار کرسکتی ہیں ،آج کل تو ہر چیز آن لائن مل رہی ہے تو اپنا کوئی فیس بک پیج ہی بناکر اس پر مختلف چیزیں بیچیں ،حلال رزق میں اللہ پاک نے برکت رکھی ہے۔یقین کریں چند ہی سال میں آپ اپنا ایک اچھا نام کماسکتی ہیں اور عزت کے ساتھ پیسہ بھی۔
آپ کسی بھی تعلیمی ادارے میں سروے کرلیں اور بچوں سے سے ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کریں کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا بننا یا کیا کرنا چاہیں گے تو یقین جانیے کہ 95فیصد بچوں کا جواب ،جاب ہوگا یا پھر ڈاکٹر، انجینئر،وکیل،لیکچرر،یا پولیس افسر کا ارادہ ظاہر کریں گے اور اکثر بچے یہ سب اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کررہے ہوں گے۔ جاب میں بھی سرکاری جاب کرنے کی خواہش والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
شاید ہی کوئی ایک بچہ ایسا ہوگا جو اپنا بزنس یا خاندانی کاروبار کی طرف آنے کی بات کرے گا،وگرنہ آج کے نوجوان والد کے کاروبار میں بھی رغبت نہیں رکھتے،بلکہ وہ کسی اور کی نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہوتے ہیں اور اگر ان سے اپنے بزنس کو آگے بڑھانے کی بات کی جائے تو ان کے پاس صرف ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب دوکان پر بیٹھ گیا ہے۔اگر یہ سب ہی کرنا تھا پھر شروع ہی سے اس طرف لگا دیتے ، اتنے سال بھی ضائع کیے اور پیسے بھی۔
اس لیے ہمارے نظام تعلیم میں ضروری ہے کہ کچھ ہنر بھی نصاب کا حصہ بنائے جائیں، بچوں کو اس بات کا احساس دلوایا جائے کہ صر ف ملازمت ہی نہیں کرنی ، بلکہ تعلیم حاصل کرکے کاروبار کی بھی کوشش کرنی ہے۔حکومت کو دیہات میں موجود نوجوانوں میں کاشتکاری کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، مختلف اسکیموں اور ورکشاپ کروائے جائیں ، جس کے ذریعے ان کاشت میں بہتری کے حوالے سے تعلیم دی جائے ،کیونکہ دیہات کی بہت بڑی تعداد روز گار کے لیے شہروں کا رْخ کر رہی ہے ، جس سے بے روز گاری کی شرح میں مزید اضافہ ہورہا ہے ، اسی طرح سے نوجوانوں کے لیے آن لائن کورسز کا اہتمام کیا جائے ، جس میں آن لائن کام کرنے کے شارٹ کورسز کروائے جائیں، ان کے لیے آن لائن آمدن کے ذرائع تک رسائی دی جائے ، تاکہ اس بیروز گاری میں کمی لائی جاسکے۔
اس کے ساتھ آج کے نوجوانوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ اسلام میں ہمیں تجارت کرنے کا درس بہت زیادہ ملتا ہے اور یہ بات ذہن نشین ہو کہ اللہ تبارک و تعالی نے برکت کے دس حصوں میں سے نو حصے تجارت میں رکھے ہیں اور جناب خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے 12ملکوں کا سفر تجارت کی غرض سے کئے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک بڑی تعداد تجارت سے وابستہ تھی اور اسی کے ذریعہ دین اسلام کی بھی اشاعت کرتے تھے۔
اپنی منزل کو ایک نئی جہت دینی ہو گی، اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ قوم و ملت کا مستقبل محفوظ بنائیں۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)