عارف شفیع وانی
فطرت کا ایک اہم حصہ سمجھی جانے والی آبی پناہ گاہیں پانی کو فلٹر کرنے میں مدد کرتی ہیں اور اہم طور پر سیلاب کیلئے بفر زون کے طور پر کام کرتی ہیں۔ تاہم جموں و کشمیر میں سرکاری اور عوامی بے حسی کی وجہ سے آبی پناہ گاہوں کی حالت تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔
سرینگر کے مضافات میں واقع ایک اہم آبی پناہ گاہ ہوکرسرکو بھی گاد،ترسیب یا تہہ نشینی ، آلودگی اور تجاوزات کی وجہ سے معدوم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔ ہوکرسر کو اس کی بے پناہ ماحولیاتی قدر کی وجہ سے آبی پناہ گاہوں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔ ہوکرسر سردیوں میں نقل مکانی کرنے والے آبی پرندوں، ساحلی پرندوں اور ٹرانس ہمالیائی انواع کیلئے ایک اہم پناہ گاہ ہے۔
پائیدار تحفظ کی عدم موجودگی میں، ہوکرسر تیزی سے اپنے اپنے پانی سمونے کی صلاحیت اور نباتات اور حیوانات کو کھو رہا ہے۔ چند دہائیاں پہلے تک یہ آب گاہ پانی اور وسیع و عریض دلدلی زمین ہونے پر فخر کرتی تھی۔ اب اس آبی پناہ گاہ کا زیادہ ترحصہ سوکھ کر خشکی میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہوکرسر 1969 میں 18.13 مربع کلومیٹر سے سکڑ کراب 13.42 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ اس کا کھلا پانی اس عرصے کے دوران 210 ہیکٹر سے سکڑ کر محض 45 ہیکٹر رہ گیا ہے۔رامسر سائٹ ہونے کے باوجود، رامسر کنونشن کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی حامل ایک آبی پناہ گاہ ہوکرسر کی بحالی کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔
زیادہ تر کھلے پانیوں پراب گھا س پھوس اور دیگر آبی پودوں کاڈھیرہ ہے ۔ 1969 میں موجودآبی پناہ گاہ کے کچھ علاقے اس عرصے میں دھان کی کاشت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ویٹ لینڈ کا ایک بڑا حصہ تعمیر شدہ علاقوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کے آس پاس نئی کالونیاں بن چکی ہیں۔آبی پناہ گاہ کے اندر دلدلی علاقے جو نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے مسکن کا ایک اہم حصہ بنتے ہیں، آبی گھاس پھوس کی وجہ سے سکڑ کر آب گھاس پھوس کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
دریائے جہلم کی فلیٹ ٹوپوگرافی، جو جنوب سے شمالی کشمیر تک 175 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے، جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کو سیلاب کیلئے پُر خطر بناتی ہے۔ جہلم کے بائیں اور دائیں طرف کی آبی پناہ گاہیں، خاص طور پر ہوکرسر سیلابی پانی کے ذخائر کا کام کرتے ہیں۔ ہوکرسر سمیت جہلم کے سیلابی میدانوں میں ماحولیاتی لحاظ سے اہم آبگاہیں تیزی سے تجاوزات اور شہری کاری کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہو چکی ہیں۔ 25 ہیکٹر سے زیادہ رقبہ کے ساتھ جہلم طاس میں بڑی آبی پناہ گاہوں کا کل رقبہ 1972 میں 288.96 مربع کلومیٹر سے کم ہو کراب 266.45 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران خاص طور پر سری نگر کے جنوب میں 20 آب گاہیںشہری کالونیوںمیں تبدیل ہوکر معدوم ہو چکی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تجاوزات کی وجہ سے ہوکرسرآبی پناہ گاہ کی ماحولیاتی حیثیت میں بڑے پیمانے پر بگاڑ آیا ہے جس نے اس کا علاقہ سکڑگیا ہے۔ یہ مسئلہ ویٹ لینڈ کی ناقص انتظامی حکمت عملیوں کی وجہ سے مزید گھمبیر ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں اس کی ترسیب یا تہہ نشینی ، بے قابو نشوونما اور گھاس پھوس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہوکرسر کی آبی ماحولیات میںبڑی تباہی 2014 کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ہوئی کیونکہ سیلابی پانی نے اس میں ٹنوں کے حساب سے گاد یا ترسیب جمع کرادی ۔بعد میں ہوکرسر نے اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پانی جذب کرنے کی صلاحیت دی جو خشک سیزن کے دوران آبپاشی کیلئے خارج کردی جاتی تھی۔
شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹکنالوجی کشمیرکے ایک تحقیقی گروپ کی زیر قیادت ’’ہوکرسر ویٹ لینڈ کے پانی کے آلودگی کے بوجھ پر موسمی تغیرات کے ایک مطالعہ‘‘ نے اس کے بگڑتے ہوئے پانی کے معیار کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ پانی اور تلچھٹ کے معیار میں مقامی اور موسمی تغیرات قدرتی اور بشریاتی سرگرمیوں سے آلودگیوں کے باقاعدگی سے آنے کی وجہ سے پائے گئے۔اس میں کہاگیا ہے’’نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ داخلی مقام میں سب سے زیادہ طبعی و کیمیائی خصوصیات اور عناصر کا بوجھ تھا، اس کے بعد مرکز اور ٹرا پا آبی گھاس کی کثرت کی جگہ، جسے انہوں نے انسان کی وجہ سے ہوئی سرگرمیوں سے منسوب کیا جو شدت اختیار کر چکی تھیں۔ آلودگی پیدا کرنے والے چھوٹے بڑے عناصر ویٹ لینڈ میں ان کے داخلی نکتہ سے داخل ہوتے ہیں جیسا کہ داخلہ مقام پر گدلے پن کی اعلی قدروں سے معلوم ہوتا ہے جو(2.06 NTU)تھا۔اس کے علاوہ پانی کا درجہ حرارت (23.55 ڈگری سیلشس)، برقی چالکتا (0.233 dS/m )، نائٹریٹ نائٹروجن (0.046 mg/L)، نائٹرائیٹ نائٹروجن (0.681 mg/L)، امونیکل نائٹروجن (0.210 mg/L)، کیلشیم(48.60 mg/L)، فاسفیٹ (0.071 mg/L)اور پوٹاشیم (0.456 mg/L) تھاجو یقینی طور پرگہرے تشویش کا باعث ہیں‘‘۔
ویٹ لینڈ کا بی او ڈی لیول (95.05 mg/L) بھی بہت زیادہ تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ماحولیاتی نظام حیاتیاتی طور پر انتہائی آلودہ تھا۔اس میں مزید کہاگیا ہے’’ویٹ لینڈ کے تحفظ کے لئے کئی حکمت عملیوں کی وکالت کی جاتی ہے، جن میں آگ گیرہ یا طاس میں شجرکاری،واٹرشیڈ ایریا میںمویشی چرنے کی ممانعت، گندے پانی کی صفائی کا نظام بنانا اور جھیل کے ماحولیاتی نظام کی مسلسل نگرانی شامل ہے۔ان اقدامات سے آبی پناہ گاہ میں نیو ٹرانٹ کی سطح کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ویٹ لینڈ کی بصری کشش کو بھی بہتر بنانے کا امکان ہے‘‘۔
حکومت ہند کی ایک رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر نے گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں 2372 کنال آبی زمین کھو دی ہے۔ ہم موجودہ آبی پناہ گاہوں کو کھونے کے متحمل نہیںہو سکتے ہیں۔ہوکرسر میں ہجرت کرنے والے پرندوں کی آمد اوران کی تعداد کو اس کی حالت کا مظہر نہیں بنایا جانا چاہئے۔ محکمہ جنگلی حیات کے تحفظ کا دعویٰ کہ انہوں نے ماضی قریب میں ہوکرسر میں 2000 کنال سے زائد تجاوزات کی ہوئی اراضی اور درختوں کی نرسریوں کو بازیاب کیا ہے، تجاوزات کی بے پناہ شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
مزید تجاوزات کو روکنے کیلئے ہوکرسر کی حد بندی اور باڑبندی بنا کسی تاخیر کی جانی چاہئے ۔ مزید نقصان سے بچنے کیلئے سائنسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہوکرسر کو کثیر جہتی مسائل کا سامنا ہے اور اسکی تحفظ کاری کے اقدامات کو تیز کرنے کے لئے بین محکمہ جاتی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ہوکرسر ویٹ لینڈ کو بچانے کے لئے قومی اور عالمی ماہرین کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوکرسر کی بحالی کو جموں و کشمیر میں دیگرآبی پناہ گاہوںکے تحفظ کیلئے ایک نمونہ بنایا جائے۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔)