ذہنی دُھند،دماغ کی بغاوت یا جدید زندگی کی المیاتی پیداوار
فکر انگیز
اسماء جبین فلک
علی کو وہ لمحہ اپنی روح پر ایک نقش کی طرح یاد ہے۔ وہ اپنے کیریئر کی بلند ترین عمارت کے کانفرنس روم میں تھا، جہاں ہر نظر ایک عدسے کی طرح اس پر مرکوز تھی۔ اچانک، اس کے ذہن میں کچھ ٹوٹ گیا۔ جیسے کسی نے شعور کی ہارڈ ڈرائیو پر فارمیٹ کا بٹن دبا دیا ہو۔ وہ الفاظ جو اس کی زبان پر تھے، بھاپ بن کر اڑ گئے۔ وہ اعداد و شمار جن پر اس کی کامیابی کا انحصار تھا، ایک بے معنی گورکھ دھندے میں تبدیل ہو گئے۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے خیالات کا بہاؤ منجمد ہو گیا ہے اور وہ ایک خالی، گونجتی ہوئی خاموشی میں قید ہے۔ کمرے کی روشنیاں ناقابلِ برداشت حد تک تیز محسوس ہونے لگیں اور کانوں میں ایک ہلکی سی سنسناہٹ نے ہر دوسری آواز کو دبا دیا۔ یہ محض یادداشت کی ناکامی نہیں تھی؛ یہ اس کے وجود کا اپنے ہی دماغ سے رابطہ منقطع ہوجانے کا ایک دہشت ناک تجربہ تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب علی نے پہلی بار ’’برین فاگ‘‘ کو ایک طبی اصطلاح کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ذات کے انہدام کی ایک زندہ حقیقت کے طور پر محسوس کیا۔
علی کی یہ کہانی محض ایک فرد کی داستان نہیں بلکہ یہ جدید دور کے انسان کا اجتماعی المیہ ہے۔ ہم ایک ایسی تہذیب میں جی رہے ہیں جو رفتار، پیداواریت اور ہر لمحہ ’’آن لائن‘‘ رہنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس تناظر میں، ذہنی دھند یا برین فاگ (Brain Fog) کوئی خرابی یا بیماری نہیں، بلکہ یہ ہمارے حیاتیاتی وجود کی طرف سے ایک بغاوت ہے۔ یہ ہمارے جسم اور دماغ کا اس غیر فطری رفتار کے خلاف ایک انتباہی نظام ہے، ایک چیخ ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنی فطری حدود سے بہت تجاوز کر چکے ہیں۔اس ذہنی بغاوت کی جڑیں ہمارے سونے کے کمروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کارپوریٹ کلچر اور مسابقت کی دوڑ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ نیند ایک عیاشی ہے، جسے کم کر کے پیداواریت بڑھائی جا سکتی ہے۔ علی کی کہانی اس کی ایک تلخ مثال ہے، جو اکثر رات گئے تک ای میلز اور پریزنٹیشنز میں الجھا رہتا، اور بچا کھچا وقت اسکرین پر گزار دیتا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ نیند دماغ کے لیے محض آرام نہیں، بلکہ ایک فعال صفائی کا عمل ہے۔ معروف نیوروسائنٹسٹ مائیکن نیڈرگارڈ (Maiken Nedergaard) نے 2012 میں ’’گلیمفیٹک سسٹم‘‘ (Glymphatic System) کو دریافت کر کے یہ ثابت کیا کہ گہری نیند کے دوران دماغی اسپائنل فلوئیڈ ہمارے دماغ کو دھو کر ان زہریلے پروٹینز (مثلاً بیٹا ایمیلوائڈ) کو صاف کرتا ہے جو دن بھر کے ذہنی کاموں کے نتیجے میں جمع ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنی نیند پوری نہیں کرتے تو یہ کچرا ہمارے نیورانز کے درمیان جمع ہوتا رہتا ہے، جو اگلے دن سوچنے کی رفتار کو سست کردیتا ہے، توجہ کو منتشر کرتا ہے اور یادداشت کو کمزور بناتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شہر کا صفائی کا نظام رات کو کام کرنا چھوڑ دے اور اگلی صبح ہر گلی کوڑے کے ڈھیر سے بھری ہو۔
اگر نیند کی کمی اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے تو ڈیجیٹل دور کا معلومات کا سیلاب اس کا دوسرا اور شاید زیادہ خطرناک، پہلو ہے۔ ہم ایک ’’توجہ کی معیشت‘‘ (Attention Economy) میں جی رہے ہیں، جہاں ہماری توجہ ایک قیمتی شے ہے جسے ہر قیمت پر خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے نیوروسائنٹسٹ ڈاکٹر اینڈریو ہیوبرمین (Andrew Huberman) وضاحت کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا، نوٹیفکیشنز اور لامتناہی اسکرولنگ ہمارے دماغ کے ڈوپامین سسٹم کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ہر لائیک، کمنٹ یا نئی پوسٹ ڈوپامین کا ایک چھوٹا سا جھٹکا دیتی ہے، جو ہمیں بار بار اپنے فون کی طرف کھینچتا ہے۔ اس مسلسل خلفشار کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ طویل مدتی، گہری توجہ کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور چھوٹی چھوٹی، فوری تسکین کا عادی ہو جاتا ہے۔ علی کو یہ احساس نہیں تھا کہ رات کو بستر پر لیٹ کر ’’صرف پانچ منٹ ‘‘کے لیے فون دیکھنا دراصل اس کے دماغ کو اگلے دن کی ناکامی کے لیے تیار کر رہا تھا۔ یہ صرف نیلی روشنی کا مسئلہ نہیں، یہ دماغ کو ایک مستقل اضطراب اور بے چینی کی حالت میں مبتلا رکھنے کا عمل ہے جو ذہنی وضاحت کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ کیا یہ ترقی ہے یا ذہنی انحطاط، کہ تاریخ کی سب سے زیادہ معلومات تک رسائی رکھنے والی نسل اپنی توجہ کو چند سیکنڈز سے زیادہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت کھو رہی ہے؟
یہ ذہنی دھند صرف ہمارے سروں میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے پورے وجود میں جڑیں رکھتی ہے، جس کا مرکز ہماری آنتیں ہیں۔ علی، اپنی طویل کام کی شفٹوں کے دوران، کافی، انرجی ڈرنکس اور پروسیسڈ اسنیکس کو اپنا ایندھن سمجھتا تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا یہ ’’ایندھن‘‘ دراصل اس کے جسم کے اندر ہی ایک آگ بھڑکا رہا تھا۔ حالیہ تحقیق نے ’’گٹ۔برین ایکسس‘‘ (Gut-Brain Axis) کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یہ غذائیں آنتوں میں جو سوزش پیدا کرتی ہیں، وہ اعصابی راستوں کے ذریعے براہِ راست دماغ تک پہنچ کر ’’نیورو۔انفلیمیشن‘‘ (اعصابی سوزش) کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لانگ کووِڈ۔19 کے لاکھوں مریض، وائرس کے جسم سے نکل جانے کے مہینوں بعد بھی شدید برین فاگ کا شکار رہے۔ کووِڈ نے دراصل اس خاموش وبا کو عالمی منظرنامے پر نمایاں کردیا اور اس حقیقت کو تسلیم کروایا کہ جسمانی سوزش براہِ راست ہماری سوچنے کی صلاحیت پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔ ہمارا جسم ایک پیچیدہ ماحولیاتی نظام ہے اور جب ہم ناقص خوراک، ورزش کی کمی اور دائمی دباؤ کے ذریعے اس کا توازن بگاڑتے ہیں، تو دماغ اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔
علی کے لیے وہ میٹنگ ایک المیہ نہیں بلکہ ایک نعمت ثابت ہوئی۔ اس نے اسے رکنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔ اس نے پہلی بار اپنے جسم کے بھیجے گئے انتباہی سگنلز کو سنجیدگی سے لیا۔ اس کا حل کسی جادوئی گولی میں نہیں تھا بلکہ اپنی زندگی کے طرزِ عمل کو بدلنے میں تھا۔ اس نے صبح اٹھ کر فون چیک کرنے کی بجائے دس منٹ صرف اپنی سانسوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ اس نے ملٹی ٹاسکنگ کو خیرباد کہا اور ایک وقت میں ایک کام کرنے کے قدیم اصول کو دوبارہ اپنایا۔ اس نے رات کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے ٹیکنالوجی سے ناطہ توڑ کر کتاب پڑھنے کی عادت ڈالی۔ اس نے اپنی میز سے انرجی ڈرنکس ہٹا کر پانی کی بوتل اور پھل رکھ لیے۔ یہ تبدیلیاں معمولی تھیں، لیکن ان کے اثرات گہرے تھے۔ مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعد، اس نے محسوس کیا کہ اس کے ذہن کا اندرونی موسم بدل رہا ہے۔ دھند چھٹ رہی تھی اور سوچ کا نیلا آسمان دوبارہ نظر آنے لگا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ ذہنی وضاحت کوئی ایسی چیز نہیں جسے حاصل کیا جاتا ہے، بلکہ یہ ہماری فطری حالت ہے جسے ہم نے جدید زندگی کے شور میں کھو دیا ہے۔
آخر میں، برین فاگ کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ ہم سے ایک بنیادی سوال پوچھتا ہے: ہم کیسی دنیا تعمیر کر رہے ہیں؟ ایک ایسی دنیا جو انسانی ذہن کی حیاتیاتی حقیقت کا احترام کرتی ہے یا ایک ایسی دنیا جو اسے ایک مشین سمجھ کر اس کی آخری حد تک نچوڑ لینا چاہتی ہے؟ اس دھند سے نکلنے کا راستہ مزید تیز رفتار ایپس یا بایوہیکنگ گیجٹس میں نہیں بلکہ سست ہونے، قدرت سے جڑنے، حقیقی انسانی تعلقات استوار کرنے اور اپنے جسم کی دانائی کو سننے میں ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو اپنے آقا کے طور پر نہیں، بلکہ اپنے انسانی مقاصد کے حصول کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کریں۔ علی کی طرح ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں اس لمحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جب ہمارا دماغ کام کرنا چھوڑ دے بلکہ آج ہی سے ان خاموش سگنلز پر توجہ دینی ہوگی جو ہمیں ایک زیادہ متوازن اور حقیقی زندگی کی طرف بلا رہے ہیں۔ شاید تب ہی ہم بحیثیتِ مجموعی اس ذہنی دھند سے نکل کر ایک روشن اور واضح مستقبل کی طرف دیکھ پائیں گے۔