سہیل انجم
عام طور پر جب بھی مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہہ ہوتے ہیں تو اس کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ ہمعصر مسائل کے سلسلے میں مسلمانوں کا اجتماعی رویہ کیا ہے۔ کیا وہ حالات کے گہرے جائزے کی روشنی میں کوئی حکمت عملی طے کرتے ہیں یا پھر جذباتی انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر سنجیدگی سے غور و خوض کے بجائے جذباتی ردعمل میں یقین رکھتے ہیں اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے جو درست معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے مسائل کے خود ذمہ دار ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عابد اللہ غازی کی ایک تحریر کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد اللہ غازی اپنے وقت کے معروف صحافی و دانشور اور روزنامہ ’’مدینہ‘‘ بجنور کے ایڈیٹر حامد الانصاری غازی کے فرزند ہیں۔ ان کی پوری عمر ممالک غیر میں گزری لیکن وہاں بھی وہ ملت اسلامیہ اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے تحریری و تنظیمی طور پر کوشاں رہے۔ سب سے پہلے ’’اسلامی اجتماعیت اور ملی انتشار‘‘ کے زیر عنوان ان کی یہ تحریر پیش ہے:
’’اذان کی صدا میناروں سے بلند ہوئی اور لوگ گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ مسجد میں اقامت کی آواز بلند ہوئی اور لوگ شانہ بہ شانہ ایک امام کے پیچھے صف آرا ہو گئے۔ پھر وہ ایک جسد واحد کی طرح امام کی ہر آواز اور ہر حرکت کی اتباع کرتے رہے۔ نماز ختم ہوئی، دعا سے فارغ ہوئے تو جلدی جلدی جوتے پہنے، دروازے سے نکلنے میں اولیت کی کوشش میں دوچار کو دھکے مارے اور قومی بھیڑ بھاڑ کے انتشار میں گم ہو گئے۔ اور پھر ایسے ہو گئے جیسے یہ نہیں کوئی اور ہی شخص تھا جو موذن کی اذان، مقتدی کی اقامت اور امام کی تکبیر کا پورے نظم و ضبط سے اتباع کر رہا تھا اور ایک منظم جماعت کے منضبط فرد کی حیثیت سے پورے صبر و تحمل سے اپنا کرردار ادا کر رہا تھا۔ اب مسجد سے باہر نکل کر دھکا دینے، کہنی مارنے، سنی کو ان سنی کر دینے، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنے اور معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو گئی۔ اس کی زندگی کا چند منٹ پہلے والی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اب کوئی منادی اسے لاکھ آوازیں دے کوئی سننے والا نہیں۔ کوئی تنظیم کی دعوت دے تو لبیک کہنے والا نہیں اور کوئی نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ بتائے تو کوئی عمل کرنے والا نہیں۔ مسجد کی تنظیمی زندگی اور پانچ وقت کی ٹریننگ کا ہماری اجتماعی زندگی پر دور دور اثر نہیں۔ یہ حال کسی ایک بستی یا ایک ملک کا نہیں پورے مسلم معاشرے کا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ مسلمانوں اور یوروپ و امریکہ کے ترقی یافتہ مسلمانوں میں یہی ایک قدر مشترک ہے۔ … میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اسلام کے مذہبی عمل کا اثر ہماری اجتماعی زندگی پر کیوں نہیں پڑتا۔ میں اپنے سے بار بار یہ سوال کرتا ہوں اور جواب دینے سے خود کو قاصر پاتا ہوں۔ شاید آپ لوگ جواب دے سکیں کہ اس تضاد کو کیسے دور کیا جائے۔ ممکن ہے آپ کوئی حل پیش کر سکیں۔‘‘
کئی عشرے قبل کی یہ تحریر مسلمانوں کی جس صورت حال اور ان کے جس رویے کی جانب اشارہ کر رہی ہے اس میں آج بھی ذرہ برابر فرق نہیں آیا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ اب ان کا رویہ اور بھی خراب ہو گیا ہے۔ راقم الحروف بھی وقتاً فوقتاً انہی خطوط پر سوچتا اور لکھتا رہا ہے۔ میں نے نئے سال کی آمد پر اپنے ایک کالم میں جو کچھ لکھا تھا وہ آج بھی برمحل ہے۔ میں نے لکھا کہ ایک اور سال گزر گیا۔ ایک اور نیا سال آگیا۔ یہ بھی گزر جائے گا۔ پھر ایک اور نیا سال آجائے گا۔ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا اور یہ دنیا سلسلۂ روز و شب کے زینے پر پاؤں رکھتے ہوئے آگے بڑھتی جائے گی۔ زندہ اور بیدار قومیں بیتے ہوئے سال کے اپنے اعمال و افعال کا نئے سال میں احتساب کریں گی اور نئے شب و روز کے لیے نئی حکمت عملی مرتب کریں گی۔ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھیں گی اور نئے عزم وولولے کے ساتھ نئے تجربات سے گزرتے ہوئے نئے جہان آباد کرنے کی منصوبہ بندی کریں گی۔ لیکن جب ہم گزرے ہوئے برسوں کے آئینے میں ملت اسلامیہ کے خد و خال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ اس آئینے میں جو صورت نظر آتی ہے اسے کسی بھی طرح جاذب نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی یہ امید باندھی جا سکتی ہے کہ اگلے سال کے آئینے میں ہمارا جو حلیہ نظر آئے گا وہ بہت پرکشش اور خوش شکل ہوگا۔ یہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ صورت حال عالمی سطح پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروں میں یکے بعد دیگرے متعدد مسائل کی بیڑیاں لپٹتی چلی جاتی ہیں اور وہ ان کو چھڑانے کی کوششوں میں مزید الجھتے جاتے ہیں۔ بعض مسائل اغیار کے پیدا کردہ ہیں تو بعض کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ زندہ قومیں اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں رہتیں بلکہ وہ خود اپنا راستہ بناتی اور برعکس حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔ لیکن ہندوستانی مسلمانوں نے شب و روز کے لیے اپنی جو ترجیحات طے کی ہیں ان میں مذمت، مظاہرے اور مطالبے عنوانِ فہرست بن گئے ہیں۔ اکثر و بیشتر اس نوعیت کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی ہیں کہ حکومتی عملہ نے فلاں مسجد، مدرسہ یا درگاہ کو توڑ دیا۔ اوقاف کی زمینوں اور املاک اور قبرستانوں پر ناجائز قبضے کی خبریں بھی عام طور پر آتی رہتی ہیں۔ ایسے مواقع پر مسلم تنظیموں کی جانب سے زیادہ دلچسپی اخباروں میں بیانات چھپوانے سے رہتی ہے۔ اسی طرح دوسرے مسائل بھی ہیں جن کو حکومتی سطح پر حل کرانے کے بارے میں ہم کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جبکہ دوسرے اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر قافلہ در قافلہ اور ہجوم اندر ہجوم اترنے کے بجائے سرکاری محکموں کے دفاتر کی خاک چھانتے ہیں اور متعلقہ حکام سے مل کر خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرا لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کوئی تہنیتی پروگرام بھی نہیں کرتے اور نہ ہی اس کام کی تشہیر کرتے ہیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی چھوٹا سا بھی کام ہو جائے تو مبارکباد کے پیغامات اور پروگراموں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے کوئی ہمالیائی کامیابی حاصل ہو گئی ہو۔ ہماری صفوں میں انتشار بھی ہماری پسماندگی اور مسائل کا ذمہ دار ہے۔ ہر مسلمان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ لیے بیٹھا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہی پوری ملت اسلامیہ کا واحد نمائندہ ہے۔ مسلمانوں کی ایسی بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں ہیں جو کئی کئی گروپوں میں منقسم ہیں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ امت میں اختلاف باعث رحمت ہے۔ لیکن یہ اس وقت باعث رحمت ثابت ہوگا جب تمام گروپ واقعی عملی اور ٹھوس کام انجام دیں اور باہمی اختلاف و انتشار سے بچیں۔
موبائل۔ 9818195929
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیںا ور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)