سید مصطفی احمد
بچہ نہ تو قدرتی آفات سے لڑ سکتا ہے، نہ جانوروں سے تاہم اب جو خطرات اس کی زندگی میں سانس سے بھی زیادہ اہم ہوگئے ہیں، ان سے لڑنا تو دور کی بات، اسکے بارے میں اسے کوئی بھی واقفیت نہیں ہے۔ اساتذہ اور ماں باپ بچوں کو زندگی کے اُتار چڑھائو کے بارے میں واقفیت فراہم کرتے ہیں۔ کس موقع پر کیا کرنا ہے، ان نا فہم بچوں کو پہلے سے ہی واضح کیا جاتا ہے۔ غم، خوشی، حسد، محبت، لگائو، دشمنی، ہمدردی، وغیرہ باتیں پہلے ہی سمجھائی جاتی ہیں۔ البتہ اگر کسی اَن پڑھ اور ناتجربہ کار کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز تھمائی جائے جو تباہی کا سامان اپنے اندر چھپائی رکھی ہو، تب حالات بد سے بدترین ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ بچوں کا بچپن ان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ معصوم اوصاف کے مالک یہ بچے اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ دنیا کی گند سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ البتہ اگر ان کو اچانک جوان بنا دیا جائے، تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ مندرجہ بالا باتیں اس لیے بیان کئی گئیں تاکہ سٹیج اصلی بات کہنے کیلئے تیار ہو۔
جن خطرات کی میں بات کر رہا ہوں وہ ہیں سوشل میڈیا، آن لائن گیمز،ڈارک ویب ،آن لائن جوا،سٹاک ایکسچینج کی دھاندلیاں وغیرہ۔ یہ نہ دِکھنے والے خطرے ہی اصلی خطرے ہیں۔ ان سب میں اتنا دَم ہے کہ موت کے ساتھ ساتھ، وسائل کا ضیاع اور سماج کے اخلاقی اقدار کی دھجیاں اْڑانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں۔ اجنبیوں سے دوستی اور آن لائن جوا کھیلنا، بچے کو تباہی کا شکار کر دیتا ہے۔ اصل میں سماج مخالف عناصر ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ان کے طور طریقے بھی اختراعی ہوگئے ہیں۔ اب وہ انٹرنیٹ پر شکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔وہ بڑوں کو بھی نہیں چھوڑتے ہیں۔ ان کو بھی ایک لالچ یا دوسری سے ایسے پھانس دیتے ہیں کہ انسان کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ بچوں کی بات ہی نہیں ہے،وہ ان چرب زبان رکھنے والوں کی کارستانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
آج کے بچے کسی بھی لحاظ سے بچے نہیں لگتے ہیں۔ان کو مندرجہ بالا چیزوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔وہ وقت سے پہلے بڑے ہوچکے ہیں۔ کچھ ویب سائٹس ایسی ہوتی ہیں کہ ایک ہی بار دیکھنے کے بعد انسان مہینوں تک اپنی اصلی حالت میں نہیں آپاتا ہے۔ اب ذرا تصور کیجئے کیسے ایک بچہ اس صورتحال سے نپٹ سکتا ہے! اس کا سکھ چین سارا ختم ہوجائے گا۔وہ وحشی پن کا شکار اور جان لیوا حرکات کی طرف مائل ہوجائے گا۔ بزرگوں کی تعظیم اس کے ذہن سے ختم ہوجائے گی۔ غیرفطری حرکات کی طرف مائل ہو جائے گا۔ اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے جسم کو چھیڑنا شروع کرے گا۔ اپنے چھپے ہوئے جذبات کا غلط اظہار کرے گا، وہ ہوس کا پجاری بنے گا۔ اس کے من میں صرف خون،پیسہ، دکھاوا، بے قراری،اداسی، جہالت، وغیرہ جیسی خامیاں گھر کریں گی۔ وہ ہنستے ہنستے رو پڑے گا اور روتے روتے ہنس لے گا۔ وہ جھوٹی تعریفوں کا عادی ہوجائے گا۔ اس دوڑ میں منشیات کے دلدل میں بھی پھنس سکتا ہے۔ یہ سلسلہ پھر نہ ختم ہونے والا ہوتا ہے۔ اس کا تدارک کرنا پھر آہنی چنے چبانے کے مترادف ہوتاہے۔ اس کے علاوہ کچھ بچے مکمل خاموش ہوجاتے ہیں۔ مزید برآں کسی کے ساتھ بلیک میلنگ اورجذباتی ٹارچر کیاجاتا ہے۔ماں باپ کو لگتا ہے کہ ہمارا بیٹا یا ہماری بیٹی موجودہ زمانہ کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک لحاظ سے صحیح بھی ہے۔ البتہ اس سوشل میڈیا اورڈارک ویب کی لت ان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا سکتی ہے،یہ خطرے کے زمرے میں بھی نہیں آتا ہے مگر یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کچھ دنوں پہلے میں نے کچھ بچوں کوڈارک ویب کی باتیں کرتے سنا۔ البتہ پڑھائی کی معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں دکھائی دئے ۔ اس چھوٹی سی عمر میں ایسی سوچ ہونا اور اس قسم کی باتیںکرناباعث تشویش ہے۔
بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ان کو وقتی طور پر سوشل میڈیا اور ان جیسی چیزوں کا استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔ زیادہ تر ان کو اپنی پڑھائی اور گھریلو کاموں میں مصروف رکھنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس کے علاوہ کتب بینی کا شوق بھی ان میں پیدا کرنا چاہئے۔ ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کیا جائے۔ بڑوں کو پہلے خود سے شروعات کرنی چاہیے۔ان کو چاہیے کہ ایک ایسا ماحول قائم کریں جہاں پر بچہ خود نیک بننے کی کوشش کرے۔ اس کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جائے۔ بچوں کے دوستوں اور رشتہ داروں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ جہاں سے بھی خطروں کے دروازے کھلنے کا احتمال ہو، انہیں فوراً بند کیا جائے۔ انٹرنیٹ تک رسائی بہت آسان ہے۔ شیرخوار بچہ بھی گوگل اسسٹنٹ کی مدد سے اپنی من پسند چیز دیکھ اور سن سکتا ہے۔ اس رسائی پر کسی حد تک قدغن ہونی چاہئے۔ حکومت کو بھی اس ضمن میں پیش رفت کرنی چاہئے۔ بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے ہر کسی کو سامنے آنا پڑے گا۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کو ہم برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ہمارے علماء کو چاہئے کہ فروعی مسائل کو ایک طرف چھوڑ کر ان سنگین مسائل کی طرف توجہ مبذول کریں۔یہی وقت کی ضرورت ہے۔
پتہ۔حاجی باغ، بڈگام کشمیر
رابطہ۔[email protected]