سید مصطفی احمد
ہمارے سماج میں جتنی بھی مشکلات پائی جاتی ہیں، ان میں گھریلو جھگڑے سب سے زیادہ پریشان کن مگر آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ اس ادارے کا ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال کی طرف جاناباعث تشویش ہے۔ ہر کوئی گھریلو جھگڑوں کا رونا رورہا ہے۔ کوئی بھی گھر کے حالات سے مطمئن نہیں ہے۔ کوئی گھر کو کوس رہا ہے اور کوئی گھر کے افراد سے بیزار ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ گھر سماج کا پہلا ادارہ ہے جہاں ہر قسم کی نشوونما ہوتی ہے۔ اب اگر اس ادارے میں خلل پڑتاہے، تو سماج کے دوسرے مربوط اداروں پر بْرا اثر پڑنا لازمی ہے۔ سماج اداروں کا مجموعہ ہیں۔ ایک ادارے میں خلل دوسرے اداروں پر بھی اپنے اچھے یا برے اثرات چھوڑتا ہے۔ گھریلو جھگڑے ایسی مشکل ہے جو گھر کے افراد کے علاوہ سماج کی بنیادوں پر بھی کاری ضرب لگانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ ایسی نحوست ہے جس سے برکت کے چشمے سوکھ جاتے ہیں۔ اس سے آنے والی رحمت بھی منہ موڑتی ہے۔ ہر گھر اس مصیبت سے دور رہنا چاہتا ہے۔ البتہ پھر بھی یہ ہمارے گھروں کا ایک ضروری حصہ بن گیا ہے۔ بہت سارے وجوہات ایسے ہیں جو اس برائی کو جنم اور فروغ دیتے ہیں۔کچھ کا ذکر آنے والوں سطور میں کیا جارہا ہے۔
پہلا ہے مادیت۔ہمارے گھر اب مادیت کے گہوارے بن گئے ہیں۔ زیادہ تر کی لالچ نے ہمیں اب انسان نما جانور بنا دیا ہے۔ پیسے، جائیداد، گاڑیاں، مکانات، رتبے، وغیرہ نے ہمارے گھروں کو اک ایسی دوڑ میں لگا دیا ہے جس میں صرف مال کی فراوانی ہے۔ اس دوڈ کی وجہ سے اب گھریلو رشتوں میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ لڑائی جھگڑے عام باتیں ہوگئی ہیں۔ ایک دوسرے کو فائدے کی نگاہوں سے دیکھنے کی وجہ سے اب انسان بھی مشین بن گیا ہے۔ جو مشین فائدہ مند ہوتی ہے، اس سے کام لیا جاتا ہے۔ جب یہ ناکارہ ہوجاتی ہے، اسی مشین کو باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔ انسان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے۔ جب تک یہ مادیت کی دوڑ میں دوڑ پاتا ہے تب تک گھریلو جھگڑوں کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے مگر جونہی اس کے جسم کے اعضاء نے جواب دینا شروع کیا یا پھر اعضاء کمانے کی حالت میں نہیں ہو، اس دن سے گھر ٹوٹنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کی جھلکKafka Franz کی ناول Metamorphosis he T میں ملتی ہے۔
دوسرا ہے غلط فہمیاں۔ ہمارے گھر غلط فہمیوں کی آماجگاہ ہیں۔ نوجوان اپنے بڑوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح بڑے چھوٹوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ اس طرح خلا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ عمر اور تجربہ کا فرق ہمارے گھروں کو آج تباہی کے دہانے کی طرف لے جارہے ہیں۔ نوجوانوں کی ضروریات اور احساسات کو ہمارے گھروں میں سمجھنے کی کوششیں نہیں ہوتی ہے۔ پھر وہ frustration کا شکار ہوتے ہیں جس کے نتائج بھیانک شکل میں نکل کر آتے ہیں۔
تیسرا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی۔ اس کی وجہ سے گھروں میں زیادہ دراڑیں پیدا ہوئی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے گھروں کے گھر تباہی کا شکار ہورہے ہیں۔ موجودہ ترقی نے ہمارے گھرانوں کو ایسے چیزوں سے روشناس کرایا ہے جس سے پچھلے زمانے کے لوگوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ دوسروں کی طرح بننے کی دوڑ میں اب ہم خود سے دور ہوگئے ہیں۔ جھوٹ نے اصل کو دبا دیا ہے۔ اس تضاد نے لگ بھگ ہر گھر کو اپنا آسان نوالہ بنا دیا۔ اپنے گھرانوں کو پھر سے اپنی ڈگر پر لانے کے لئے ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے پڑیںگے۔ گھر سے بڑی اور کوئی نعمت نہیں ہے۔ گھر کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اپنے گھروں کو پھر سے خوشیوں کا گہوارہ بنانے کیلئے ہمیں پھر سے اپنے گھروں کو سنبھالنا پڑے گا۔ بزرگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو سمجھنے کی کوششیں کریں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو بھی اپنے اندر درکار تبدیلیاں لانا ضروری ہیں۔ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک ہر کسی کو گھر کی افادیت کو نظروں میں رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ فرد سے گھر اور فرد سے معاشرہ بنتا ہے۔ اور معاشرے کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔
رابطہ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی، سرینگر
فون نمبر۔9103916455