گول میں آئوٹ ڈور اور انڈ ورسٹیڈیموںکی تعمیر ہنوز ایک خواب آئوٹ ڈور پر دودن کام ہونے کے بعد بند، انڈور پر من مرضی سے چل رہا ہے کام

زاہد بشیر
گول//گول میں ایک آؤٹ ڈورسٹیڈیم کا تعمیری کام ربن کاٹنے کے چند دن بعد بند ہوگیا جبکہ انڈور سٹیڈیم کا کام کچھوے کی چال سے چل رہا ہے ۔آئوٹ ڈورسٹیڈیم کی تعمیر کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ایک کروڑ کے قریب ٹینڈر لگے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی ایک انڈور سٹیڈیم کی تعمیر بھی کئی برسوں سے تشنہ تکمیل ہے۔ یہ کام جے کے پی سی سی کی زیر نگرانی میں ہو رہا ہے ۔ چند ہفتے قبل ڈی ڈی سی چیئر پرسن نے کافی جوش وخروش کیساتھ آئوٹ ڈورسٹیڈیم کے تعمیری کام کی شروعات کی تھی اور حسب ِ دستو ر ایک جے سی بھی مشین کھڑی کر کے ربن کاٹا ، مٹھائیاں بھی بانٹیں لیکن پھر کچھ نہ ہوا۔جس جوش و خروش کیساتھ ڈی ڈی سی موصوفہ نے سٹیڈیم کے تعمیری کام کا افتتاح کیا تھا ،ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چند ہی ماہ میں سٹیڈیم کی تعمیر مکمل ہوجائے گی اور نوجوانان ِ گول کو اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقعہ ملے گا لیکن’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ کے مترادف سٹیڈیم کا تعمیری کام چند ہی روز نامعلوم وجوہات کی بناء پر بند ہوگیاجس کے بعد عوام شش و پنچ میں پڑ گئی ہے کہ آخر اتنے جوش و جذبے سے تعمیری کام شروع کرنے کے بعد ایکدم سے بند کیوں کیا گیا۔ لوگ حکام اور عوامی نمائندگان کی نیت پربھی اب شک کرنے لگے ہیں کہ وہ عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کا کام کر رہے ہیں ۔ مقامی لوگوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے لوگوں کے جذبات کیساتھ کھیلنا کافی مضحکہ خیز اور ناقابل ِ برداشت ہے۔سٹیڈیم کیلئے جن اراضی مالکان نے اراضی دی تھی اْن کا گلہ ہے کہ آج سے تقریباً پانچ برس قبل انہوںنے سٹیڈیم کیلئے اراضی دی لیکن پانچ برس گزرنے کے باجود بھی نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ دیا گیا اور نہ ہی سٹیڈیم کی تعمیر ہو سکی ۔ وہیں اس آئوٹ ڈور سٹیڈیم کے ساتھ ہی میں ایک انڈور سٹیڈیم کی تعمیر بھی کئی برسوں سے ہو رہی ہے لیکن وہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔جہاں تعمیر و ترقی کے دعوے کئے جا رہے ہیں وہیں گول سب ڈویژن میں کروڑوں کے بڑے بڑے پروجیکٹوں پر تعمیری کام مکمل طور پر ٹھپ ہے۔آئوٹ ڈور سٹیڈیم کا تعمیری کام چند روز بعدہی بند ہونے پر جب ڈی ڈی سی چیئرپرسن سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ کام زمینداروں نے بند کروایا ہے ۔ وہیں زمینداروں نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ آئوٹ ڈور سٹیڈیم پر تعمیری کام شروع ہواتھا لیکن کیا حکام سے پوچھا جاسکتا تھا کہ وہ کس کی اراضی تھی؟۔انکاکہناتھا تھاکہ اگر چہ کئی زمینداروں نے پانچ سال قبل اراضی دی تھی لیکن وہ دونوں سٹیڈیموں کے لئے نا کافی تھی اور آئوٹ ڈورسٹیڈیم کے لئے اراضی کم تھی ۔انہوںنے مزیدکہا’’ یہاں پر خود ہی لوگ آئے اور لوگوں کی اراضی میں بناء پوچھے چونا ڈال کر لکیر کھینچی اور ربن کاٹ لیا جس پر ہم نے اعتراض جتا کر کام بند کروایا‘۔انہوں نے کہا ’’ہماری اراضی کے کاغذات نہیں بنے تھے اور نہ ہی ہم سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کی اراضی آئوٹ ڈور سٹیڈیم میں آ رہی ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ اتنا بڑا غیر ذمہ دارانہ قدم اُٹھایا جا رہا ہے کہ لاکھوں روپے مالیت کی غریب عوام کی اراضی پر بناء پوچھے ڈوزر چلایا جا رہاہے ‘‘۔انہوںنے مزید کہا’’انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ پہلے اراضی مالکان سے بات کرے اور اسکے بعدتعمیری کام شروع کرے اور باقی تمام کروڑوں کے پروجیکٹوں پر جلد از جلد تعمیری کام شروع کیا جائے تا کہ جو تعمیر و ترقی کا دعویٰ کیا جا رہاہے وہ شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔