دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح اسلام بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اُس وقت وسیع پیمانے پر پھیلا جب وہاں کی حکمرانی مسلمانوں نصیب ہوئی۔ یہ حکمرانی عمومی طور پر جنگوں کے ذریعے حاصل کی گئی تاہم چند مثالیں ایسی بھی ہیں جہاں تبلیغ دین اور مسلما نوں کی اخلاقی برتری سے حکمران مسلمان ہوئے اور پھراس علاقے میں اسلام کی تعلیمات و عدالت نے قلوب واذہان میں جگہ بنانا شروع کر دی۔ تلوار کے ذریعے اسلام کے پھیلنے سے اگر کوئی یہ مراد لیتا ہے کہ کسی ملک کے باشندوں کے گلے پر تلوار رکھ کر اسلام قبول کروایا گیا تو یہ بات تاریخی طور پر غلط ہوگی۔ جو کام عیسائیوں نے یہودیوں اور مسلمانوں کے ساتھ سپین میں کیا وہ مسلمانوں نے کہیں نہیں کیا کیونکہ ہر کلمہ خوان کو اس سے اللہ نے واضح طور پر منع کیا ہے۔اسلام کے حکومتی طاقت سے پھیلنے سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے تخت وتاج کے ذریعے دیگر اقوام کو مفتوح کیا اور جب مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوئی تو لوگ تیزی سے مسلمان ہونا شروع ہوئے کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عوام حکمرانوں کا دین جلدی قبول کرتے ہیں۔ عیسائیت کا بھی یہی معاملہ تھا۔ یہ مذہب کئی صدیوں تک مظلوموں کی سی حالت سے مخصوص رہا اوربہت کم لوگ اس کی جانب راغب ومائل ہوئے، لیکن جب رومی شہنشاہ کانسٹنٹائن نے عیسائیت قبول کی تو تھوڑی مدت میں ہی یہ مذہب سلطنت کے طول وعرض میں پھیل گیا۔ یہی صورت حال بُدھ مت کی ہے جسے اشوک کے زمانے میں عروج حاصل ہوا۔ اگر ہم فرض کریں کہ مسلمان جزیرہ عرب تک ہی محدود رہتے تو کیا اسلام اسی سرعت سے پھیل سکتا تھا جس طرح یہ جنگوں کے ذریعے پھیلا؟ میرے خیال میں یہ ممکن العمل نہیں تھا۔ چند استثنیات کے ساتھ اسلام کی بڑے پیمانے پر اشاعت اسی وقت ممکن ہوئی جب تلوار کے زور پر دیگر ممالک پر قبضہ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں مسلمانوں کو حکمرانی نصیب نہیں ہوئی، وہاں اسلام اکثریتی مذہب کبھی نہیں بن سکا۔ پُرامن طریقے سے اسلام کے پھیلنے کی ایک مثال انڈونیشیا ہے جہاں جنگ کئے بغیر اسلام پھیلا۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان تاجروں کے اخلاق اور روش ِکار سے بے حد متاثر ہو کر انڈونیشیائی عوام جوق درجوق مسلمان ہوئے کہ آج انڈونیشیا ایک اکثریتی مسلم ملک ہے۔ یہ بات تاریخی طور پر غلط ہے۔ سچ یہ ہے کہ انڈونیشیا میں مسلمان تاجر کئی صدیوں سے رہائش پذیر تھے لیکن وہ چند سوافراد کے علاوہ کسی کو مسلمان نہ کر سکے۔ وہاں اسلام کا حقیقی پھیلاؤ تیرھویں صدی سے شروع ہوا جب مختلف جزیروں کے حکمرانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جس علاقے کے حکمران مسلمان ہوتے گئے وہاں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ انڈونیشیا کی مثال بھی ہماری بات کی ہی تصدیق کرتی ہے کہ اسلام ان خطوں میں پھیلا جہاں مسلمانوں کو حکمرانی کا موقع ملا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو چھ سو سال کی تبلیغ پورے انڈو نیشیا میں اسلام پھیلانے کے لئے بہت بڑا عرصہ تھا۔ کشمیر میں سلطان رینچن شاہ کے مسلمان ہونے اشاعت اسلام کے لئے زمین ہموار ہوئی جسے امیر کبیر شاہِ ہمدانؒ نےواضح حکمت عملی سے اتنی تقویت دی کہ اس کا کوئی حد وحساب نہیں ۔ البتہ عصررواں میں مسلمانوں میں فکری زوال اور نظری جمود کی وجہ سے مسلمانوں میں احساس کم تری در آیا ہے۔ اس پر ستم کہ بعض متنازعہ زیرزمین قوتوں کی سرگرمیوں نے جو فساد پھیلا یا، کچھ اس بہانے اور کچھ مسلمانوں کو جان بوجھ کربدنام کر نے کی نیت سےبہت سارے عناصر اسلام کوایک جنگجو مذہب قرار دلانے میں جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا توڑ یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان اسلام کو امن کا دین اُجاگر کر نے میں قول سے زیادہ عمل کا مظاہرہ کریں تاکہ دنیا کی غلط فہمیاں دورہوںمگر اسی کے ساتھ ہمیںتاریخ کو مسخ کرنے سے بھی گریز کر ناچاہیے کیونکہ تاریخ کو جھٹلانا حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے جس کا مسلمانوں کوکوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہئے کہ انسانی تاریخ میں جنگوں کی بھی بہت اہمیت رہی ہے اور یہ کہ تمام تہذیبوں اور مذاہب نے خود کو اس طرح غلبہ دیا ہے۔ یہ تاریخ کے ا دوار کا مروجہ طریق کار تھا اور اسلام سے مخصوص ادارہ نہیں، بلکہ ہمیشہ سے انسانی تہذیب کا ایک بنیادی حصہ رہا ہے۔ تجارت وثقافت کے ذریعے بھی اور جنگوں کے ذریعے بھی مختلف اقوام کا آپس میں تعامل ہوا ہے جو انسانیت کی ترقی کے لئے بنیادی عنصر ہے۔ اگر انسان پرامن رہتے تو شاید ابھی تک غاروں میں رہ رہے ہوتے۔آج چونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، اس لئے جنگ ایک غیرضروری ادارہ بن چکا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ جنگیں یا تو ختم ہو جائیں گی یا پھر بہت ہی محدود ہو جائیں گی۔ البتہ ہمیں مسلمانوں کےماضی کے حوالے سے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام نہ ہی ہمیں ہر صورت جنگ کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی اس سے یکسر منع کرتا ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ مسلمانوں کو حالات کے مطابق کرنا ہے ۔غلامی کا ادارہ بھی ماضی میں انسانی تہذیب کا ناگزیر حصہ تھا لیکن ایک وقت آیا جب مشینوں نے غلاموں کی جگہ سنبھالی اورایک سو سال میں ہی ہزاروں سال پرانا یہ ادارہ ختم ہو گیا۔ اسی طرح جنگ بھی شاید اسی صدی میں ہی ختم ہو جائے کیونکہ دنیا میں امن وآشتی کی پیاس بڑھتی جارہی ہے اور افہام وتفہیم کی راہیں استوار ہورہی ہیں ،اس لئے غالب امکان یہی ہے کہ جنگ کی ضرورت باقی ہی نہ رہے۔ اسلام کا حُسن وجمال اس پس منظر میں زمانے کی پہلی ضرورت ہے ، اس لئے مسلمانوں کوموجودہ دور کی مشکلات اور مصائب کی زیریں لہروں میںمستقبل کی ان پر امیدافزاپرچھائیوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔