شیخ ولی محمد
مطالعہ کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ تاریخ انسانیت کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جب اﷲ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر اﷲ کی طرف قرآن پاک کی پہلی وحی سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کی شکل میں نازل ہوئی ۔ وحی الٰہی کی ابتداء لفظ ’’ اِقْرَأ ‘‘ سے ہوئی جس کے معنی پڑھنے کے ہیں ۔ یہ اسی ’’ اِقْرَأ ‘‘ کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں جہالت ، اندھیراور پسماندگی دور ہوئی اور اس کی جگہ روشنی اور علمی و انقلابی تبدیلی نے جگہ لی ۔ ہر زمانے اور ہر دور میں جب بھی انسان مطالعہ سے وابستہ رہا اس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا جسکی بدولت دنیا میں عدل و انصاف اور تعمیر و ترقی نصیب ہوئی ۔ بقول ممتاز مفتی ’’ قرآن نے عقل و خرداور علم و تحقیق کی ایک فضاء پیدا کردی ۔ جگہ جگہ کتب خانے بن گئے ۔ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوا ۔ کتابیں اکٹھا کرنا فیشن بن گیا۔ ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں کتب خانے بنادئے گئے ۔ صرف شہر بغداد میں 6,00,000نادرکتابیں تھیں ۔ قرطبہ کے کتب خانے میں 4,00,000نادر کتابیں موجود تھیں ۔ جس کاcatalogue چوالیس جلدوں میں مکمل ہوا۔ علم کے اس شوق کی وجہ سے دو سال میں عرب علماء نے کئی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، ان کتابوں نے چاروں طرف علم کی روشنی پھیلاد ی ‘‘۔معاشرے کی تعمیر و ترقی اور صحیح تربیت کے لئے مطالعہ کتب ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ ’’ کتابیں انسان کو حیات فانی میں عزت اور حیات دوامی میں ابدی سکون بخشتی ہیں‘‘ ۔والٹیر نے کہا تھا ’’ آپ کو اس حقیقت کا شعور ہونا چاہئے کہ جب سے دنیا بنی ہے ، وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے حکمرانی کی ہے ‘‘۔ مطالعہ کامیاب زندگی میں ایندھن کا کردار اداکرتا ہے۔ دنیا کے کامیاب امیر ترین اور موثر افراد کی زندگیوں میں آپ کو ویسے تو کئی اچھی عادات دیکھنے کو ملتی ہیں مگر ان سب میں قابل ذکر اور قیمتی عادت کتابوں سے علم حاصل کرنے ، اپنی آگاہی کو بڑھانے اور شعور کی دنیا کو روشن کرنے کی عادت ہیں ۔ امریکی صدر ابراہیم لنکن کا کہنا ہے کہ’’ جو کچھ میں نے حاصل کیا وہ کتابوں کی بدولت حاصل کیا‘‘۔
پروفیسر آرنلڈ منظم زندگی گزارنے کے عادی تھے ۔ اصول پسند اور وقت کے بڑے قدر شناس تھے ۔ وقت کی قدر دانی ان میں کس حد تک پائی جاتی تھی اور وہ کس قدر مطالعے کے دلدادہ تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگا یا جاسکتا ہے جس کا ذکر علامہ شبلی نے اپنے سفر نامے میں کیا ہے ۔ واضح رہے کہ دونوں سمند ی جہاز کے ذریعے اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ شبلی لکھتے ہیں’’ مئی۱۸۹۲ ء کی صبح کو میں نیند سے جاگا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے ہوئے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے ۔ انجن بالکل بے کار ہو گیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا ۔ میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔ اس اضطراب میں اور کیا کرسکتا تھا ۔ دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا۔ وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’ آپ کو کچھ خبر بھی ہے‘‘ ؟ بولے ’’ ہاں ! انجن ٹوٹ گیا ہے‘‘ ۔ میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں ! بھلایہ کتاب دیکھتے کا موقعہ ہے ؟ فرما یا ’’ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابل قدروقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے‘‘۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا۔ آدھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بدستور چلنے لگا۔(سفر نامہ روم و مصر و شام ازشبلی )
آج کے اس انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں کتب بینی کی عادت کافی حد تک متاثر ہوچکی ہے ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ای۔ بکس کامطالعہ تو کرتی ہے لیکن آج بھی ہمیں حقیقی کتابوں کی اہمیت ہر جگہ واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ 90فیصد ای بک(e- book)مالکان کا کہنا ہے وہ ای بُکس کے مطالعے سے زیادہ پیپر بک( Paper Book)ہی پڑھتے ہیں ۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ کمپیوٹرس نے مطالعہ کتب کو بہت ہی متاثر کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مائیکرو سافٹ کے سابق CEOبل گیٹس ہرہفتہ ایک نئی کتاب پڑھتے ہیں اور اس طرح وہ سال میں50کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بل گیٹس نے ابتدائی عمر سے ہی سائینسی فکشن ، ناول اور انسائیکلوپیڈیا کا مطالعہ کیا ۔ کمپیوٹرکے حوالے سے کیا ہم جان ون نیومان( John Von Neumann)کو بُھلاسکتے ہیں جنہوں نے Quantum Mechanics کی بنیاد ڈالیاور Game Theoryوغیرہ کو ایجاد کیا ۔ اس کے مطالعہ کا حال یہ تھا کہ وہ لاطینی امریکہ کی تاریخ کا ماہر اور امریکی سول وار پر ایک Authorityتھا۔ اسکی بیوی کا کہنا ہے کہ John Von Neumannاپنا لنچ بھول جاتا تھا لیکن کتاب کے ہر صفحہ سے اس کو ہر چیزیاد رہتی تھی جو کتاب اس نے 15برس قبل مطالعہ کی تھی ۔ دنیا میں بہت سارے ایسے افراد ہیں جو کھانے کے دوران بھی مطالعہ کرتے تھے ، سفر کے دوران ، گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میںبھی یہاں تک کہ مطالعہ کے ساتھ ان کا شوق اتنا تھا کہ وہ پیدل چلتے ہوئے بھی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ۔ Norbert Wienerجو کہ MITمیں ریاضی کا پروفیسر تھا، پیدل چلتے ہوئے بھی کتاب کا مطالعہ کرتا تھا ۔ Nikola Tesla،جنہوں نے 100برس پہلے موبائیل فون کی پیشگوئی کی تھی ، آٹھ زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ،لیکن کیسے ؟ اُن کے باپ نے بیٹے کو لائبریری میں رات کے وقت کتب بینی سے دور رہنے کی ہدایت کی تاکہ اسکی آنکھیں متاثر نہ ہوسکیں ۔ مطالعہ کے شوق سے سرشار Nikola Teslaرات کے وقت موم بتیوں کا استعمال کرکے لائبریری سے استفادہ کرتا تھا کیونکہ ابھی تک انہوں نے Alternating Currentکو دریافت نہیں کیا تھا۔ Teslaکا باپ بیٹے کی یہ عادت چھوڑنے کیلئے اس کی موم بتیاں کو چُھپاکررکھتا تھا تاہم Teslaموم کو جمع کرکے ٹین کے اندر رکھ کر اس کو روشن کرتا تھا یہاں تک کہ صبح سویرے تک لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا ۔ ان مثالوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دنیا میں انہی لوگوں نے مختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گارڈ دئیے جو ہمیشہ اپنے آپ کو کتابوں کے مطالعہ سے لیس کرتے رہے ۔
تخیل انسانی زندگی کا جزولازم ہے ۔ تخیل ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ تخیل کے بارے میں آئن اسٹائن نے کہا تھا ’’ ذہانت کا حقیقی مظہر علم نہیں ،تخیل ہوتا ہے‘‘ ۔تخیل وہ صلاحیت ہے جو ہمیں اس دنیا کی وسعتوں کا فہم اور شعور عطا کرتا ہے اور ہمیں ان وسعتوں میں دو رتک دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ نئی سوچ ، نئے خیالات ، ایجادات اور تخلیقات سب تخیل کی مرہون منت ہیں ۔ مطالعہ نہ صرف ہمارے تخیل کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ ہمارے تخیل کی دنیا کو روشن ، واضح اور رنگین بھی بناتا ہے ۔ مطالعہ ہمیں پرُکشش اور موثر انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ بہترین اور معیاری کتب کا مطالعہ ہماری شخصیت کی تعمیر ، تشکیل اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
ماہرین تعلیم کے مطابق بچوں کیلئے انٹرنیٹ ، موبائیل ، ای بکس کے بجائے حقیقی کتابیں ہی سود مند ہیں ۔California University of Berkleyکی تحقیق کے مطابق جن بچوں کو ایک سے تین برس کی عمر میں والدین نے کتاب پڑھ کر سُنائیں، انہوں نے زندگی میں آگے چل کر ذہانت کے امتحانوں میں بہت زیادہ نمبر حاصل کیے ۔ بچے ٹی وی دیکھنے سے زیادہ کتابوں سے نئے الفاظ سیکھتے ہیں ۔ کتابوں میں چھپی تصاویر ان پر علمی دنیا کے دروازے کھولتی ہیں ۔ تجسس کو جنم دیتی ہیں ، ذہن کو مختلف زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور بچوں سے کچھ اس انداز میں گفتگو کرتی ہیں جوان کے سوچنے کے عمل ، شناخت ، زندگی میں ان کے مقام اور کردار میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہوجاتی ہیں ۔ تحقیق کے مطابق جن بچوں کو وقت گزاری کیلئے مطالعہ کرنے کی عادت ہوتی ہے، ان میں اکیلے پن اور ڈپریشن لاحق ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین مطالعہ کو ہماری ذہنی اور جسمانی صحت دونوں کیلئے نہایت ضروری اور مفید سمجھتے ہیں ۔ ناروے میں آٹھویں جماعت کے بچوں پر کئے گئے ایک وسیع مطالعے میں انکشاف ہوا کہ وہ لوگ جو سمارٹ فون، Tablet، یاComputer Screenپر کتابیں اور دوسرا تحریری مواد پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں کسی خاص موضوع پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے جبکہ وہ بہت بے صبرے اور غیر متحمل مزاج بھی بن جاتے ہیں ۔اوسلو یونیورسٹی کی پروفیسر مارٹی بلکسٹاڈبالاس نے ناروے میں بچوں پرا یک تفصیلی تحقیق میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس تحقیق میں آٹھویں جماعت کے مقامی بچوںمیں ریاضیاتی صلاحیتوں اور دوسری متعلقہ مہارتوں کا جائزہ لیا گیا ۔ اس مطالعے کے دوران ریاضی سے ہٹ کر یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان بچوں کی یاداشت بیس سال پہلے اسی جماعت میں پڑھنے والے بچوں کی نسبت بہت کمزور ہوچکی تھی ۔ مارٹی بلکسٹاڈ بالاس کے مطابق اگرچہ ہمارا دماغ ڈیجیٹل میڈیا پر بھی تحریر کو تحریر کے طور پر ہی سمجھتا اور پڑھتا ہے لیکن ا س ڈیجیٹل میڈیا پر تحریر میں تصویروں کے علاوہ بھی خلل ڈالنے والی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے دماغ میں کسی نکتے پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور ہمیں تسلسل سے طویل جملے پڑھنے کی عادت نہیں رہتی ۔ بلکسٹاڈ بالاس نے نئی نسل کی یاداشت خراب ہونے کی بڑی ذمہ داری ’’ گوگل ایفیکٹ‘‘ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو شعوری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’ انٹرنیٹ‘‘ پر سرچ کرنے سے ہر طرح کی معلومات مل جائیں گی تو آپ ہر چیز کو یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھتے اور اس طرح کم عمری میں یاداشت بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں روایتی کتابیں ہاتھ میں تھام کر پڑھنے سے یاداشت بہتر ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر سید قاضی سراج ازھرمشیگن سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ میںسائنٹفک ریویوکمیٹی(Scientific Reveiw Committee)کے چیئرمین ہیں ۔ نیروسائنسز (Neurosciences)میں تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ وہ تدریسی عمل کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سکولی بچے ڈیجیٹل اور الیکڑانک اشیاء جیسے کمپیوٹر ،ٹیبلٹ موبائیل فون کا استعمال محدود پیمانے پر کریں ۔ انہوں نے04اکتوبر 2018کو سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سرینگر میں ” Pedagogy of Science at School Level”کے عنوان پر ایکسٹنشن لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ اساتذہ سکولوں میں Spoon feeding Approachکے بجائےActivity based Methodologکا استعمال کریں تاکہ بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوسکے ۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی عمر کے ابتدائی حصے میں بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے ۔
کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت واافادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسا تذہ کرام سے یہی گذارش ہے کہ وہ خود بھی مطالعہ کے عادی بنیں اور بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کریں ۔ اگر بچوں میں یہ سنہری عادت پیدا ہوئی تو تعلیم کے مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں ۔ یہ ایسی عادت ہے جس سے جدا ہونا بچے ہرگز پسند نہیں کریں گے ۔سکول میں لائبریری اور ریڈنگ روم قائم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور آن لائن کتابیں پڑھنے کے بجائے گھر پر بھی لائبریری قائم کرنے کے لئے بچوں کو ترغیب دیں۔
سُرورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)