کشمیر میں مختلف فصلوں ، دالوںاور سبزیوں کی بوائی کے 2ماہ ضائع متواترژالہ باری اوردرجہ حرارت میں گراوٹ سے امسال مجموعی پیداوار میں کمی کا احتمال

اشفاق سعید

سرینگر// وادی کشمیر میں مارچ کے بعد لگاتار بارشیں، ابر آلود موسم،بالائی علاقوں میں برفباری اور گرج چمک کیساتھ متواتر طور ژالہ باری سے فصلوں اور سبزیوں کی بوائی کے اہم اور ابتدائی 2ماہ ضائع ہوگئے ہیں۔زرعی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ژالہ باری اور درجہ حرارت میں معمول سے 10ڈگری کی کمی سے وادی میں پھلوں، سبزیوں اور فصلوں کی مجموعی پیداواری صلاحیت میںبڑی حد تک کمی واقع ہونے کا احتمال ہے۔گذشتہ کچھ برسوں کے دوران، انتہائی نوعیت کی موسمیاتی کیفیات وادی میں معمول بن چکی ہیں،جو غذائی و آبی تحفظ کو متاثر کرتے ہیںاور اس کا سب سے زیادہ اثر کسانوں اور کاشتکاروں پرپڑرہا ہے ۔ اس وقت ہارٹی کلچر شعبہ کے ساتھ وادی کے 7لاکھ لوگ بلواسطہ اور بلا واسطہ جڑے ہوئے ہیں ،اور یہ شعبہ ہماری معیشت میں 5ہزار کروڑ روپے اور گھریلو پیداوار میں تقریباً 7 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔

 

 

اس وقت وادی میں سیب کی پیداواری صلاحیت 10 میٹرک ٹن ہے اور تمام پھلوں کی اوسط 5-6 میٹرک ٹن ہے،لیکن اس سال کاشتکاروں اور کسانوں کی محنت پر پانی پھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال وادی کشمیر میں موسمیاتی تبدیلی گھمبیر صورتحال پیدا کر چکی ہے اور اس سے غذائی بحران کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔محکمہ موسمیات نے جس طرح دوبارہ 8جو ن تک دور دور تک وقفے وقفے سے بارشیں ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے یا جس طرح سے مئی کے مہینے میں معمول سے زیادہ بارشیں اور ژالہ باری سے فصلوں کو نقصان پہنچا ہے، اس کے بعد ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے، کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید تشویشناک بن سکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سرد موسمی صورتحال کے علاوہ بوائی کے پہلے دو مہینے ضائع ہونے کے بعد پھلوں اور فصلوں کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہونے کا احتمال ہے ۔زرعی یونیورسٹی کشمیر(سکاسٹ) میں ایگرو میٹرالجی شعبہ کی ایک ماہر سائنسدان ڈاکٹر سمینہ قیوم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس سال کسانوں کو ایک بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا ۔انہوں نے کہا ’’ ایک تو معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں، دوسرا درجہ حرارت کم رہا اور تیسرا ژالہ باری ہوئی، اس سے نقصان ہوا ہے اور مزید ہونے کا بھی احتمال ہے ۔انہوں نے کہا کہ ژالہ بار ی سے جو نقصان ہوا ہے وہ ایک طرف لیکن جو میوہ درختوں پر تھا، اس کو داغ لگ چکے ہیں جس سے ان میں بیماریوں کا زیادہ خطرہ ہے اور اس کا معیارمتاثر ہو گا۔انہوں نے کہا کہ گیلاس کی فصل کو اُتارنے کا سیزن آیا تو زیادہ بارشوں کی وجہ سے یہ بھی متاثر ہوا ہے۔اسی طرح سبزیوں میں ٹماٹر کی پیداوار بھی درجہ حرارت میں کمی کی وجہ سے کم ہوئی ہے کیونکہ جہاں ٹماٹر کی فصل لگائی گئی تھی وہاں پانی کی نکاسی کا کوئی بھی بندو بست نہیں تھا ۔انہوں نے کہا کہ مئی کے آخری ہفتے میں درجہ حرارت معمول سے 10 ڈگری کم ہونے کے نتیجے میں مکئی اور دھان کی فصل کو بھی شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے،کیونکہ مکئی کی فصل اس وقت 1 فٹ ہونی چاہئے تھی،جو نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ دھان کی بوائی ابھی ہوئی ہی نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جون کے پہلے ہفتے سے بنیادی طور پر دھان اور مکئی کے علاوہ دالوں کی فصلیں اگنا شروع ہوجاتی تھیں لیکن امسال ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ڈاکٹر سمینہ قیوم نے بتایا کہ جہاں کہیں پر بھی باغات میں ژالہ باری ہوئی ہے، وہاں کاشتکاروں کو اپنے باغات میں ایک فیصد یوریہ سپرے کا چھڑکائو کرنا ضروری بن گیا ہے کیونکہ وہاں میوہ باغات اور درختوں کے پتوں میں داغ پڑگئے ہیں اور سبزیوں کے کھیتوں میں پانی کا نکاس انتہائی ضروری ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ سبزیوں کی پنیری مارچ اور اپریل میں لگائی جاتی ہے لیکن وہ بھی نہیں لگ سکی جبکہ مئی کا پورا مہینہ بارشوں کی نذر ہوچکا ہے۔ معلوم رہے کہ حال ہی میں محکمہ باغبانی نے ایک عبوری رپورٹ تیار کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنوبی کشمیر میں قریب 140اور شمالی کشمیر میں 150گائوں میں ژالہ باری نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی تھی او ر ان علاقوں میں 10سے70فیصد میوہ باغات کو نقصان پہنچا تھا ۔تاہم محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر اقبال چودھری کی منطق کچھ دوسری ہے۔انکا کہنا ہے کہ21جون تک دھان کی پنیری لگا سکتے ہیں، موسم خشک ہو یاپھر بارش ، دھان کو صرف پانی کی ہی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ بات غور طلب ہے کہ مئی کے آخری ہفتے اور جون کے پہلے ہفتے میں ہی وادی کشمیر میں دھان کی پنیری لگانے کا موسم ہوتا ہے ۔زمیندار ایسوسی ایشن نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ نا ظم زراعت کو دھان کی فصل کے بارے میں کوئی علمیت ہی نہیں ہے اور وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ کیسے کسانوں کو کوئی صلاح دے سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 10مئی کے بعد پنیری لگانے کا سیزن ختم ہوجائیگا اور اگر اسکے بعد دھان، مکئی، سبزیوں اور دالوں کی بوائی ہوتی بھی ہے تو فصل نہ ہونے کے برابر ہوگا۔