ایم ایم شجاع
کشمیر ایک نمایاں سیاحتی مقام ہے۔ ہر سال لاکھوں ملکی اور بین الاقوامی سیاح وادی کا رخ کرتے ہیں۔ کشمیر اپنی مہمان نوازی کیلئے بھی مشہور ہے۔لوگ خیال رکھتے ہیں۔ ہنگامہ آرائی کے دوران لوگوں نے نہ صرف باہر کے لوگوں کی مالی مدد کی بلکہ کسی بھی صورت حال میں انہیں بچانے کیلئے اپنی جانیں بھی قربان کیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف سیاحتی مقامات پر متعدد واقعات دیکھنے میں آئے جہاں مقامی لوگوں بالخصوص ٹورسٹ گائیڈز نے نہ صرف سیاحوں کو بچایا بلکہ ان ریسکیو آپریشنوںکے دوران کئی نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
افراتفری کے دور میں اور آج بھی یہاں رہنے والے لوگ سیاحوں کے ساتھ ساتھ امرناتھ یاتریوں کو ہر طرح کی لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں۔ پارٹی لائنں سے بالاتر باہر سے بھی ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں نے اہل وادی کے جذبہ خیر سگالی کو سراہا ہے۔ہنگامہ خیز دور میں جب مختلف واقعات میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے، اس وقت ریکارڈ کیے گئے جرائم کا گراف کم تھا۔ لوگ، خصوصاً نوجوان، اخلاقی اقدار کو برقرار رکھتے، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام کرتے، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک اپنی ثقافت اور اخلاقی اقدار کھو رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ منشیات کی لعنت کی لپیٹ میں ہے جس نے ہزاروں خاندانوں کو برباد کر دیا ہے۔
والدین کے خواب چکنا چور ہو گئے کیونکہ وہ اپنے بچوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ کچھ والدین اپنے عادی بچوں کی بحالی کیلئے آگے آ رہے ہیں لیکن کچھ خاندانی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے اپنی سرگرمیوں کو چھپا رہے ہیں جس سے تباہی کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ منشیات کے استعمال کے واقعات میں اچانک اضافے نے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی صحت کی حالت کو خراب کیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو تباہ کر دیا ہے۔ آئے روز ہونے والے حملے، قتل، اغوا، چوری، چھرازنی اور خودکشی جیسے واقعات نے پورے معاشرے کو صدمے میں ڈال دیا ہے۔ ہم باشعور شہری ہونے کے ناطے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں۔
75 سال کی عمر کے ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس گندگی کیلئے پورے معاشرے کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کرے۔ انہوں نے اپنی خدمات کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ والدین اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرواتے وقت اساتذہ پر بھروسہ کرتے تھے۔ہر طالب علم کو سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں انتظامیہ کی طرف سے مناسب نگرانی میں رکھا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اساتذہ اب تنخواہوں کیلئے کام کرتے ہیں اور انتظامیہ منافع کیلئے۔والدین بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو پکنک اور شاپنگ کیلئے مہنگے موبائل فون، بائیک اور خوبصورت جیب خرچ فراہم کر رہے ہیں۔سکولوں کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ سکولوں میں طلباء کی حاضری کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید اور اخلاقی دونوں طرح کی تعلیم فراہم کریں۔ طلباء کے کسی بھی مشکوک رویے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور والدین کو اس کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔ بروقت تدارک ان کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔وادی میں منشیات کے بڑھتے ہوئے واقعات نے والدین کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں کیونکہ اس نے ان کے خوابوں کو بھی چکنا چور کر دیا ہے۔ جموں و کشمیر سے منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے مساجد کے امام، سول سوسائٹی گروپس، صحافیوں، کالم نگاروں، ماہرین تعلیم، شاعروں اور ادیبوں کو آگے آنا چاہئے۔
وزیر اعظم نے 30جولائی کو اپنے “من کی بات” پروگرام کے دوران ملک کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ “نشہ مکت بھارت ابھیان” کی کامیابی کیلئے کام کریں جو کہ مرکزی حکومت کی طرف سے منشیات سے پاک ہندوستان کیلئے کی گئی پہل ہے۔یہ مشن جبھی کامیاب ہوسکتا ہے جب مختلف محکمے اور گروپ ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں۔
ایک طرف منشیات فروشوں اور سمگلروں کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں۔ دوسری طرف ہمارے نوجوانوں کیلئے ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پر بحالی مراکز قائم کئے جائیں۔ پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت معلومات دینے میں مقامی انتظامیہ کمیٹیوں کا کردار ہے، کیونکہ اس سے منشیات کی سمگلنگ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ وادی میں چونکہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، محکمہ پولیس کو سماجی برائیوں پر توجہ دینی چاہئے۔اس مسئلے پر صرف سیمیناروں، کانفرنسوں، لیکچروں اور مباحثوں سے ہی اس مقصد کو حاصل نہیں کیاجاسکتا جب تک کہ ہمارے معاشرے سے منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے کوئی پالیسی نہ بنائی جائے۔ ہم نے پہلے ہی کافی وقت ضائع کیا ہے اور مزید تاخیر صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے۔
(مضمون نگار ایک سینئر صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان کو کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)