آغا سید عابد حسین الحسینی
زبان قومی شناخت کے طور پر اقوامِ عالم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ زبان کسی ایسے لباس کی طرح نہیں ہے کہ جسے اُتار کر پھینکا جاسکے بلکہ زبان تو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوتی ہے۔یہ بات اس تناظر میں اور بھی معنویت اختیار کر جاتی ہے جب جموں و کشمیر کی اسمبلی میں کشمیری زبان کے استعمال پر پابندی کے حالیہ واقعے پر غور کرتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی سیشن کے اندر اسمبلی ممبر جناب مبارک گل کا کشمیری زبان میں اظہار خیال کرنا اور اسے روک دیا جانا محض ایک معمولی پارلیمانی واقعہ نہیںبلکہ درحقیقت کشمیر کی ثقافتی شناخت پر ایک شبخون ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی کے اسپیکر عبد الرحیم راتھر نے بدھ کو نیشنل کانفرنس کے رکنِ اسمبلی مبارک گل کو کشمیری زبان میں تقریر کرنے سے روک دیا، یہ کہتے ہوئے کہ ایوان میں مترجم موجود نہیں ہے۔
اسمبلیوں میں مادری زبان، بین الاقوامی اور قومی روایت:
دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں اس اصول کو تسلیم کرتی ہیں کہ مادری زبان میں قانون سازی عوام کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرتی ہے۔ اگر ہم ہندوستان کے ہمسایہ صوبوں کا جائزہ لیں تو یہ تصویر واضح ہو جاتی ہےکہ، پنجاب کی اسمبلی میں پنجابی زبان کو قانون سازی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ اتر پردیش میں ہندی کے ذریعے پارلیمانی کاروبار چلتا ہے۔کرناٹک میں کنڑ، مہاراشٹر میں مراٹھی اور مغربی بنگال میں بنگالی زبان میں ہی قانون سازی اور بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔یہ روایت نہ صرف عوامی نمائندگی کو بامعنی بناتی ہے بلکہ علاقائی ثقافتوں کے تحفظ کا بھی ضامن ہے۔
کشمیری زبان، تاریخ اور ثقافتی ورثہ :
کشمیری زبان کوئی نوخیز زبان نہیں بلکہ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کی امین ہے جس کے علمی ثبوت ہزاروں سال پرانے ہیں۔ یہ زبان اپنے اندر شیخ العالمؒ، شمس فقیر اور مرزا ابوالقاسم ؒ جیسی عظیم ادبی و عرفانی شخصیات کا ورثہ سمیٹے ہوئے ہے۔
اسمبلی میں کشمیری زبان پر پابندی، ثقافتی موت کا حکم:
حالیہ واقعے میں جب اسمبلی کے اندر کشمیری زبان میں بات کرنے پر روک لگائی گئی، تو درحقیقت ہم نے دیکھا کہ ثقافتی جمہوریت کا جنازہ نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ لسانی تنوع کے عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔ کشمیری عوام سے ان کے ثقافتی ورثے تک رسائی محدود کر دی گئی۔یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عام کشمیریوں کو تو کجا، اب ان کے منتخب نمائندے بھی اسمبلی میں محفوظ نہیں رہے۔
کشمیری زبان کے زوال کے اثرات : اسمبلی میں کشمیری زبان کے استعمال پر پابندی کے منفی اثرات میں شامل ہیں۔
(۱)ثقافتی شناخت کا خاتمہ:زبان کسی قوم کی شناخت کی شہ رگ ہوتی ہے۔ اس کے بغیر قوم اپنی تاریخی جڑ سے کٹ جاتی ہے۔
(۲) ادبی ورثے کا خسارہ:کشمیری زبان میں صدیوں کا ادبی اور علمی خزانہ موجود ہے جو نظر انداز ہو رہا ہے۔
(۳) نئی نسل کا لسانی انحطاط:جب اسمبلی میں زبان کو عزت نہیں ملے گی تو نئی نسل اسے پڑھنے لکھنے میں کیوں دلچسپی لے گی؟
راہ حل،مستقبل کے امکانات۔حالیہ دور میں کشمیری زبان کے لیے کچھ امید کی کرنیں بھی ہیں:
� ٹیکنالوجی کا مثبت رجحان:مائیکروسافٹ اور گوگل جیسی عالمی کمپنیوں نے کشمیری زبان کو اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں شامل کیا ہے۔
� سرکاری حیثیت: جموں و کشمیر کی سرکاری زبانوں کے بل 2020 نے کشمیری کو سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے۔
� نوجوانوں میں بیداری: مقامی تعلیمی ادارے کشمیری زبان کے کورسز متعارف کرانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
� سرینگر کے ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی نے پارلمنٹ میں حلف اپنی کشمیری زبان میں اٹھایا۔
� میرواعظ کشمیر ڈاکٹر عمر فاروق صاحب نے میرواعظ یوسف شاہ کا ترجمہ قرآن چاپ کرواکر نئی نسل کو عظیم علمی اور دینی سرمایہ فراہم کیا۔
� تبیان قرآنی ریسرچ انسٹیٹوٹ میںہم نے بھی کشمیری زبان میں ایک منفرد قرآن کریم کا ترجمہ دس پاروں تک مکمل کیا۔
� کشمیری نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مادری زبان اور ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے قابلِ تحسین کام کر رہے ہیں اور ان کی کوششیں بین الاقوامی سطح پر بھی سراہی گئی ہیں۔
ثقافتی جنگ کا اعلان :اسمبلی میں کشمیری زبان کے استعمال کو یقینی بنانا کوئی مراعات کی بات نہیں بلکہ جمہوری حق ہے۔ جس طرح ہندوستان کے دیگر صوبے اپنی زبانوں میں قانون سازی کر رہے ہیں، اسی طرح کشمیر کی اسمبلی میں بھی کشمیری زبان کو فوری طور پر نافذ کرنا چاہیے۔یہ محض لسانی مسئلہ نہیں بلکہ ثقافتی بقا کی جنگ ہے۔ اگر ہم آج کشمیری زبان کو اسمبلیوں میں زندہ نہ رکھ سکے تو آنے والی نسلیں ہم سے یہ سوال کریں گی کہ ہم نے ان کی ثقافتی وراثت کو ضائع ہونے کیوں دیا۔کشمیری زبان کے بغیر نہ کشمیر کی شناخت ممکن ہے نہ ہی اس کے ثقافتی ورثے کا تحفظ۔
رابطہ۔9797972239