ڈاکٹر آزاد احمد شاہ ‘
کتاب کی اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ بڑھتی ہی رہی ہے۔کتاب کا انسان سے تعلق بہت پرانا ہے۔کتاب کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چار مقدس کتابیں اور کچھ صحیفے نازل فرمائے مگر ان کو سمجھانے کے لیے سوا لاکھ انبیاء کرام علیہم السلام کو جس آ دمی کے پاس کتاب ہے وہ اکیلا نہیں ہے۔ اکیلا شخص وہ ہے جس کے پاس ذہنی مشغولیت کیلئے کچھ نا ہو، کتاب آدمی کو بہترین ذہنی مشغولیت دیدیتی ہے۔پھر جو آدمی کتاب پڑھے وہ اکیلا کیسے رہے گا۔
کتاب کیا ہے ؟ وہ صاحب کتاب کے مطالعہ اور تجربہ کا نچوڑ ہے، ہر کتاب گویا ایک خاموش آدمی ہے۔جب ہم کتاب پڑھتے ہیں گویا ہم کسی آدمی سے خیالات کے تبادلہ میں مصروف ہوتے ہیں۔کتاب پڑھنا ایک آدمی کی ہم نشینی ہے اور بہت سی کتابیں پڑھنا بہت سے آدمیوں کی ہم نشینی ہے۔ایک آدمی محدود مدت تک زندگی گزار کر چلا جاتا ہے۔اگر کتاب کا طریقہ نہ ہو تو گزرے ہوئے آدمیوں کے بارے میں جاننا ہمارے لیے نا ممکن ہوجائے۔
مگر کتاب کی صورت میں آدمی کے بعد بھی اس کا ریکارڈ موجود رہتا ہے۔کتاب کے ذریعے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ آپ ایک مقام پر رہ کر ساری دنیا کے لوگوں کو مل سکیں۔ آپ ایک زمانے میں ہوتے ہوئے ،ہر زمانے کے لوگوں کے خیالات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ آدمی کے علم کو بڑھاتا ہے اس کے تجربات کو شخصی سطح سے بڑھا کر عمومی انسانیت کی سطح تک پہنچا دیتا ہے۔
کتاب کی لائبریری گویا انسانی اجتماع ہے۔ اس اجتماع گاہ میں داخل ہوکر آپ کسی بھی وقت کسی بھی آدمی کی بات سن سکتے ہیں،کسی بھی جگہ کسی بھی آدمی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ کتاب اعلیٰ انسانوں کی نمائندہ ہے۔ کتاب علم کا خزانہ ہے۔ بلاشبہ اس دنیا میں علم کے خزانہ سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ ( تعمیر حیات)
کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔ بلکہ انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، تنہائی کی جاں گسل، طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی نا ہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ، زندگی کے تلخ واقعات اور ذات کے مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے۔ اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی اچھائی اور برائی سے باخبر ہونے لگتا۔ اچھی کتاب ایک بہترین دوست کی طرح ہر برے وقت میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ ہم کو اچھائی اور بْرائی سچ وجھوٹ حق وباطل کے فرق کو سمجھاتی ہے۔
کتابیں ہم کو ہمارے رب سے ملاتی ہیں ، زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ میں غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔بہترین کامیاب ،پر سکون اور خوشی گوار زندگی گزارنے کے اصول سکھاتی ہے۔زمانے کی اونچ نیچ زندگی کے نشیب و فراز سمجھاتی ہے۔
کتابیں انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہیں اور خود آگاہی اور اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاء محال ہے۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
کتابیں انسان کو گمراہی کے بھنور میں ڈبوتی بھی ہیں، کتابیں انسان کو گم کردہ راہ بھی بتاتی ہیں، وہ کامل رہبر بھی ہیں اور قاتل رہزن بھی ہیں۔
زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدر ومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں، جن کا تعلق کتاب اور علم سے مضبوط رہا ہو۔ قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفرہوتی ہے۔
مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے، ’’مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لیے اور اس کی ترقی کی لیے بہت ضروری ہے‘‘۔ ابراہام لنکن کا خیال ہے کہ ’’کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے‘‘۔ والٹیئر کا قول ہے، ’’وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں‘‘۔ رینے ڈیس کارٹیس کہتا ہے کہ ’’تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کے بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
لوگوں کی آپسی دوستی کا نتیجہ فساد اور بگاڑ ہوا کرتا ہے، مگر کتاب کی دوستی سے روح کو تازگی اور طبیعت کو سرور حاصل ہوتا ہے۔ انسانی ذہن وفکر کی آبیاری ہوتی ہے، تہذیب و ثقافت کے عمدہ سانچے میں ڈھلنے کی ترغیب ملتی ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات ہوتی ہے اور ان کے تجربات سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)