سرینگر//جھیل ڈل کی ساکت لہروں پر تیرتے ہاوس بوٹ مہمان و مقامی سیاحوں کی آمدکے انتظار میں ہیں،جبکہ شکارامالکان کورونا لاک ڈائون کے نتیجے میں نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔وادی میں گزشتہ قریب80روزسے جاری لاک ڈائون کے نتیجے میں دیگر کاروباری طبقوں کی ہی طرح شکارا مالکان بھی بری طرح متاثر ہوگئے ہیں۔ شکارا مالکان کا ماننا ہے کہ لاک ڈائون کے نتیجے میں19مارچ سے اب تک قریب40کروڑ روپے کے نقصانات سے انہیں دو چار ہونا پڑا ہے۔ جھیل ڈل کے علاوہ نگین جھیل میں4ہزار791رجسٹرڈ شکارے ہیں،اور قریب5ہزار کنبے ان پر براہ راست منحصر ہیں۔کشمیر شکارا اونرس ایسو سی ایشن کے صدر حاجی ولی محمد کا کہنا ہے کہ ڈل جھیل میں شکاروں کی تعداد قریب3ہزار ہے جبکہ نگین اور حضرت بل کو ملا کر انکی تعداد4791 بنتی ہے۔ حاجی ولی محمد کا کہنا ہے کہ اوسطاً ایک شکارا کی آمدنی ایک ہزار روپے روزانہ ہوتی رہی ہے،جبکہ سیاحتی موسم میں آمدنی میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔انہوں نے کہا’’ اس وقت سیاحتی موسم ہے،اور شکارا بان و مالکان کیلئے یہ سال بھر کی آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے،تاہم لاک ڈائون کے نتیجے میں انکی امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے‘‘۔ شکارا ایسو سی ایشن صدر نے مزید کہا’’ حکام نے فی شکارا مالک کیلئے ایک ہزار روپے کے ریلیف کا جو اعلان کیا ہے وہ ایک بھونڈا مذاق ہے،بلکہ انہیں تمام صورتحال کا احاطہ کرکے ایک پیکیج دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک برس سے مجموعی طور پر شکارا مالکان کو 100کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حاجی ولی محمد نے کہا’’ اصل میں گزشتہ سال3اگست کو سیاحتی ایڈوائزری جاری ہونے کے بعد ہی کاروبار ٹھپ ہوگیا،سیاح وادی چھوڑ کر چلے گئے،اور ہڑتال کے نتیجے میں 5ماہ تک عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایڈوائزری بعد میں کئی ماہ بعد واپس بھی لی گئی تاہم غیر ملکی و بیرون ریاستی سیاحوں نے کشمیر آنے کا رخ نہیں کیا۔ ولی محمد نے کہا’’ امسال سیاحتی موسم شروع ہوتے ہی کورونا بھی آگیا اور رہی سہی کسر پوری کردی۔ انہوں نے بتایا کہ اس صنعت کا پہلے1990کی دہائی اور بعد میں2008،2010کے علاوہ2016کی عوامی ایجی ٹیشن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا،جبکہ سیلاب کے دوران2014میں انہیں نا قابل تلافی نقصان ہوا۔ولی محمد کا ماننا ہے ’’ شکارا کاروبار تباہی کے دہانے پر ہے‘‘،اور انکے بچوں کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے۔