سید بشارت الحسن بخاری،پونچھ
پانی مخلوق کے لئے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے حکومتوں نے اسے بنیادی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے عوام تک پہچانے کو پہلی ترجیح دی ہے۔دنیا میں آبی ذخائر کی کوئی کمی نہیں ہے کہ انسانی ضروریات کو پورا نہ کیا جا سکے۔ عرب ممالک میں جہاں پانی کی کمی محسوس کی جا تی ہے وہاں بھی حکومتیں عوام کو بروقت پانی مہیا کروا رہی ہیں۔ماضی قریب میں جب عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو اس دوران ان لوگوں نے مزید مشکلات کا سامنا کیا، جن کو باہر دور سے جاکر سروں ہر اُٹھا کر پانی لانا پڑتا تھا۔ جموں کشمیرکے کئی دیہی علاقوں کی خواتین آج بھی دور دورسے اپنے سروں پر پانی اٹھا کر گھر لانے پر مجبور ہیں۔مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں جل جیون مشن کو آگے بڑھانے کے اپنے مقصد میں، جل جیون مشن 2022-23 کے تحت یوٹی کو مجموعی طور پر 9289.15 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے، جو کہ پچھلے سال کے بجٹ میں مختص کردہ رقم سے 6412.71 کروڑروپے زیادہ ہے۔ 2021-22 میں، مرکز نے 2747 کروڑ روپے مختص کئے تھے جو پچھلے سال 2020-21 سے تقریباً 4 گنا زیادہ تھے۔ اس بار حکومت نے حیران کن رقم مختص کی ہے جو اس کے پچھلے سال کے بجٹ سے تقریباً دوگنی ہے۔
ہر سال جے جے ایم کے بجٹ میں یہ خاطر خواہ اضافہ ہر گھر میں نلکے کے پانی کے کنکشن فراہم کرنے اور جانچ، نگرانی کے ذریعے پانی کے معیار کے انتظام کی صلاحیت بڑھانے کے اپنے عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت کی سنجیدگی کا عکاس ہے۔ 2024 تک ملک کے ہر دیہی گھر میں یقینی نل کے پانی کی فراہمی کا بندوبست کرکے دیہی علاقوں میں معیار زندگی اور بہتر زندگی گزارنے میں آسانی کو مزید بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم نے جل جیون مشن (جے جے ایم) کا 15 اگست 2019 کواعلان کیا تھااور تب سے جے جے ایم ریاستوں کے ساتھ شراکت میں لاگو کیا جا رہا ہے۔یہ ہر گھر اور سرکاری اداروں جیسے اسکولوں،اے ڈبلیو سیز، آشرم شالوں، پی ایچ سی، سی ایچ سی، کمیونٹی سینٹرز، ویلنیس سینٹرز، جی پی بلڈنگ، وغیرہ کو پینے کے قابل نل کے پانی کی فراہمی کے حوالے سے یقینی خدمات کی فراہمی کے بارے میں ہے۔ جے جے ایم کا مقصد طویل مدتی پینے کے پانی کی حفاظت کے حصول کے لیے مقامی لوگوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔جموں وکشمیر میں آبی ذخائر کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن آج بھی بہت سارےایسے علاقہ جات موجود ہیں جہاں پینے کے پانی کیلئے عوام کئی طرح کی زبردست پریشانیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ایک جانب حکومت ہر گھر جل اور ہر گھر نل کا خواب پورا کرنے کی دوڑ میں ہے لیکن دوسری جانب زمینی سطح پر کئی لوگ ہفتوں پانی کے انتظار میں رہتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔جموں و کشمیر میں محکمہ صحت عامہ اب محکمہ جل شکتی بن چکا ہے،حکومت اس جانب کافی توجہ مبذول کر رہی ہے لیکن پانی کی نایابی، جوں کی توں نظر آرہی ہے۔ چشموں سے پانی فراہم کرنے کے علاوہ واٹر سپلائی اسکیمیں بھی قائم کی گئی ہیں لیکن ان واٹر سپلائی اسکیموں میں جب کوئی تکنیکی خرابی آجاتی ہے یا موٹر جل جاتی ہے تو مقامی عوام کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دیہی علاقہ جات میں پانی کی پریشانی کے بارے میں جب سماجی کارکن ظفر بخاری سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھر کی سلواہ پٹھانہ تیر واٹر سپلائی اسکیم کا پانی آج تک گاؤں پٹھانہ تیر کے منجاکیراور کنجیالی میں نہیں پہنچا ،جس کی وجہ سے وہاں کی مقامی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے عوامی مفاد کیلئے اس اسکیم پر کافی پیسہ خرچ ہوا۔ لیکن ہمارے گاؤں کے منجاکیر اور کنجیالی کی عوام کو اس کا فائدہ نہیں مل سکا۔جب دیہی علاقہ جات میں پانی کی پریشانی کے سلسلے میں سماجی کارکن ریحانہ کوثر سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ ہمارے گاؤں فتح پور منڈی کے کئی گھر ایسے ہیں جہاں آج بھی پانی کی پریشانی ہے۔انہوں نے کہاکہ کئی گھروں میں نل کا پانی میسر ہے لیکن بیشتر گھرانوں کے لئے پانی کی نایابی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔اور لوگ پانی کے لئےترستے رہتے ہیں۔اسی گاؤں کی رحمت بی نامی ایک خاتون نے بتایا کہ مجھے پانی لانے کے لئے کافی دور جانا پڑتا ہے۔ جب یہاں پر برف باری زیادہ ہوتی ہے تو ہمارے لئے دور دور سےپانی لانا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس ترقی یافتہ دورمیں بھی ہم اپنے سر پر پانی اُٹھا کر لاتی ہیں۔ رحمت بی کی صاحبزادی جو دسویں کلاس کی طالبہ ہیں کہتی ہیں کہ میں جب اسکول جاتی ہوں تو مجھے منہ دھونے کے لئے بھی پانی نہیں ہوتا اور ہر ذی شعور اس بات سے خوب واقف ہے کہ اسکول جانے سے قبل صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا جاتاہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں جب مجھے کافی دور سے پانی لانا پڑتا ہے تو میرا سارا وقت آنے جانے میں ضائع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں میری اسکولی تعلیم بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ یہاں پر ہمیں پانی کی دستیابی کی کوئی سہولت میسر نہیں، جس کی وجہ سے کافی دور سے پانی لا کر ہی کھانا پینے کی چیزیں تیار ہوجاتی ہیں اور مال مویشیوں کو بھی پانی ڈھو کر پلاتے ہیں۔
تحصیل منڈی کی پنچائت سلونیا اے کے وارڈ نمبر دو کے محمد اقبال نے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے گھر میں ابھی تک پانی کا کنکشن،سینگشن نہیں ہوا ہے۔محلے کے دوسرے کئی گھروں میں پانی کے کنکشن ہیں لیکن وہاں بھی پانی کی شدیدکمی ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ جب بھی متعلقہ محکمہ کے کسی ملازم سے بات کی جاتی ہے کہ ہمیں بھی پانی فراہم کیا جائے تو ہر بار ہم سے یہی کہا جاتاہے کہ اگلے ماہ آپکو پانی کا کنکشن مل جائے گا۔ لیکن کئی ماہ اور برس گزر گئے اور ہمیں نہ پانی اور نہ پانی کا کنکشن۔انہوں نے مزیدکہاکہ گھریلو استعمال کےلئےجہاں سے پینے کا پانی لانا پڑتا ہے،وہاں سے آنے جانے میں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوجاتا ہے۔ درج بالا حقائق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ دیہی علاقہ جات میں آج بھی لوگ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی پانی کیلئے زبردست مشکلات سے دوچار ہیں۔موسمی صورتحال کے بدلتے ہی عوامی مسائ
ل میں اضافہ ہوجاتا ہے اور برف بار ی اور بارشوں کے دوران کو پانی کی حصولیابی کے لئے درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔زمینی سطح پرعوام کو درپیش مشکلات کو سمجھتے اور محسوس کرتے ہوئے انتظامیہ کے لئے لازم ہے کہ وہ عوام کو اس بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئےٹھوس اقدام اٹھائیں تاکہ پانی جیسی بنیادی ضرورت کیلئے عوام کو مزید ترسنا نہ پڑے۔(چرخہ فیچرس)
������������������