مظفر حسین بیگ، گلمرگ کشمیر
استاد کی عظمت سے انکار نہیں تاہم یہ دیکھنا ضروری ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتے میں آج بگاڑ کیوں پیدا ہوا ہے اور ایک معاشرے میں اس نے اپنا مقام کیوں کھویا ہے۔ شایداستاد آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں صرف اپنی ذات کے گرد گردش کرتا رہتا ہے جس سے دن بہ دن اس کا مقام اور وقار خود اپنے ہاتھوں سے کم ہوتا چلاجارہا ہے۔ آج کل نظام تعلیم خریدوفروخت اور تجارت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔ مگر افسوس آج کا استاد (استثنیٰ کے ساتھ) مادیت میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اس کے نزدیک پیشہ معلمی کا مطلب صرف نوکری، سکیل، ترقی، ٹیویشن، من پسند جگہ پر تعیناتی اور پیسہ ہی رہ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں خاص طور پر سرکاری اداروں میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اساتذہ کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ اساتذہ کی تمام تر توجہ ٹیوشن سنٹرز کی جانب ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچے ٹیویشن لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ بہت سارے والدین اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ آج استاد طالب علم کو اپنی روحانی اولاد نہیں بلکہ صرف ایک بزنس پوائنٹ سمجھتا ہے۔ دور جدید کے اساتذہ میں مطالعہ کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ اس پیشے سے وابستہ افراد کو کتاب وراثت میں ہی ملی تھی اور وہ گھر میں کتابوں کو دیکھے بغیر ہی طلباء کو پڑھاتے ہیں جو کہ تعلیم و تعلم میں سم قاتل سے کم نہیں ہے ۔
مانہ کہ اساتذہ کے کچھ مسائل ابھی تک سرکار کے پاس زیر التوا ہوسکتے ہیں اصولی طور جہاں مسائل ہوں ،وہاں کوئی نہ کوئی حل بھی لازماً ہوتا ہے مگر بحیثیت معمار قوم جو امانت ایک استاد کوسپرد کی گئی ہے اور جو امیدیں اور توقعات ان کے ساتھ وابستہ ہیں وہ متاثر ہوتی جارہی ہیں آئے روز اخباروں اور سوشل میڈیا میں دکھایاجاتا ہے کہ فلاںسکول میں صفر داخلہ ہے یا فلاع سکول میں تیرہ بچے اورسات اساتذہ ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ والدین کا دن بہ دن اعتبار سرکاری سکولوں سے کیوں اٹھتا جارہا ہے اور ان کی ترجیحات نجی تعلیمی ادارے کیوں ٹھہرے۔ مانا کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کے پاس وردی،قلم،کاپیوں اور دیگر ضروریات کا کسی حدتک فقدان ہوسکتا ہے لیکن سرکاری سکولوں میں اب وسائل کی کمی بھی نہیں ہے۔ ہمارے اساتذہ بھی آج اچھی خاصی تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن پیشہ سے انصاف نہیں کرتے۔کاش وہ غریب طلبہ کو اپنا انگ سمجھ کر ان کے اخراجات پر اپنی آمدنی کا کچھ حصہ خرچ کرناگواراکرتے۔ یہاں کے سرکاری سکولوں کی ابتر صورتحال باشعور اساتذہ کرام سے یہی تقاضا کرتی ہے کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوے ہر ایک استاد نادار طلبہ وطالبات کے تعلیمی اخراجات پر کچھ نہ کچھ صرف کرنے کا کلچر اپنائیں۔اس سے کسی حد تک سکولوں کی صورت حال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور طلباء اور اساتذہ میں بہترین رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔