رئیس یاسین
وہ لمحات زندگی کے سب سے اہم اور فایدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ جن میں ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے۔ جن میں وہ اپنے ماضی کے گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے دربار میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا وہ آدمی ہوسکتا ہے جو کسی مہلک جگہ اپنی سواری کے ساتھ اترے۔ سواری ہی پر اس کے کھانے پینے کا سامان بھی ہو، وہاں وہ سڑک کر ذرا دیر کے لیے سو جائے اور جیسے ہی بیدار ہو جائے ،دیکھے کہ اس کی سواری کہیں جاچکی ہے۔ وہ اسے تلاش کرتا پھرے، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہوجائے تو کہنے لگے کہ اپنے پڑاؤ کی جگہ لوٹ چلتا ہوں اور وہیں سو جائو ں گا، یہاں تک کہ موت آجائے۔ پھر وہ اپنے بازو پر سر رکھ کر مرنے کے لیے لیٹ جائے لیکن کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ اس کی سواری کھانے پینے کے سامان کے ساتھ موجود ہے۔ وہ شخص جتنا اس وقت خوش ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مومن کی توبہ سے اس سے زیادہ بھی خوش ہوتا ہے(البخاری) وہ لمحات جب اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے اور جب وہ راضی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی گناہ کو چھوڑنا جب کہ دنیا میں گناہوں کا ماحول عام ہو اور ایک بندہ مومن پرہیز گاری کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہو تاکہ مالک اس سے راضی ہو جائے۔ دنیا کی ہر ایک شے سے اخلاق کو مقدم رکھتا ہو، ان کے نزدیک اخلاق ہر چیز پر مقدم ہے اور فائدہ ہو یا نقصان، ہر صورت میں اختلافی اصولوں کی پابندی بچا لاتے ہیں۔ اس حقیر دنیا کی عارضی لزتوں اور مفادات کے خاطر اپنے آخرت کو برباد نہیں کرتے ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے آخرت کے طالب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے جان، مال، اولاد کے بدلے جنت کا سودہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔(سورہ توبہ)ان کے سامنے دنیا کے کتنے بھی مفادات ہو وہ اللہ تعالیٰ کے خاطر اپنے نفس پر ہر وقت فتح پاتے ہیں۔ دنیا کی برائیوں سے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ حلال کھاتے ہیں حرام سے اپنے آپ کو روکتے ہیں۔ اسطرح ان کی ہجرت گناہوں سے نیکی کی طرف ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجز وانکساری کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ وہ ایام، وہ لمحات، وہ وقت جس میں انسان خود کو برائی سے بچائے، حقیقت میں وہ لمحات انسان کو آخروی زندگی میں کام آئیں گے۔ پیغمبر اسلام بھی یہی تعلیمات دے کر گئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں مختلف طریقوں سے قدم قدم پر انسان کو دنیا وی آزمائشوں میں ڈالتا ہے اور کامیابی ان کے لئے ہے، جو ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت جس دل میں ہوگا وہ تو بیماری کو پسند کرے گا لیکن گناہوں کی زندگی کو کبھی پسند نہیں کرے گا۔ حضرت یوسف علیہ سلام نے جیل کی زندگی کو پسند کیا، وہ برائی کے نتائج سے واقف تھے۔ حضرت ابراہیم نے آگ پسند کی لیکن اللہ تعالیٰ کو راضی کر گئے۔ امام ابن القیم الجوزیہ فرماتے ہیں۔’’ قیامت کے روز اعمال کے ثواب سے جیسے ہی پردہ اٹھے گا، معلوم ہو گا کہ خدا کی یاد میں گزرا وقت اس جہاں کی سب سے قیمتی چیز تھی‘‘۔ زندگی میں ان مقامات پر جہاں پر اللہ تعالیٰ کی خاطر زندگی بسر کرنا ہی مطلوب اور مقصود ہو تو پھر نہ کوئی غم نہ حزن رہتا ہے۔ پھر انسان کو سکون قلب حاصل ہوجاتا ہے، تب زندگی میں نہ کوئی شکوہ رہتا ہے نہ کوئی شکایت۔ جب بندے کا اپنے مالک سے رشتہ مضبوط ہو پھر نہ اسے اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں رہتا بلکہ وہ ہر وقت شکر کرتا رہتا ہے ۔حالات جیسے بھی ہو، اُسے مخلوق سے کوئی شکایت نہیں رہتی ہےاور نہ وہ زندگی میں موت سے غافل رہتا ہے۔ فکر آخرت ہر وقت اس کے ذہن میں رہتی ہے گویا کہ وہ اس طرح زندگی گزارتا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں،’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کندھے سے پکڑ کر فرمایا : دنیا میں ایسے رہو جیسا کہ کوئی مسافر یا راہ گیر رہتا ہے۔‘‘حضرت عبداللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ’’ اگر شام آسانی سے حاصل ہو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح مل جائے تو شام کا انتظار نہ کرو ،اپنی صحت اور زندگی کو غنیمت سمجھ کی بیماری اور موت سے پہلے وہ کام کرو جو مرنے کے بعد کام آتے ہیں۔‘‘(بخاری)خدا کی محبت اور جناب نبی کریم ؐ کی محبت سے بندہ مومن دنیا کے ہر ایک غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ہر وقت دنیا میں اس فکر میں رہتا ہے کہ آخرت کی تیاری کے لئے دنیا میں اسلام کو ضابطہ حیات سمجھ کر زندگی گزارتا ہے۔ انسان کو اس پر فتن دور میں یہ چیز سمجھنی چاہتے کہ الله تعالیٰ کی نا فرمانی نہ ہونی پائے۔ جب دین اجنبی ہو جائے گا تب دین کا دامن نہیں چھوڑنا ، یہی اصل کامیابی و فلاح ہے۔ حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے۔
[email protected]>