نظمیں

کیوں تاثیر رکھی
اس چمن کے بلبل کی آواز میں وہ تاثیر رکھی ہے
بنا کے دنیا محبت میں اپنی اسیر رکھی ہے
کہساروں سے بہتی ندیاں، پھولوں پہ اُڑتی تتلیاں
ہر شئے کی ادا میں اس نے انوکھی تنویر رکھی ہے
اہلِ خرد نے جب بھی چاہا آزمائش میں لانا اُسے
ہر فرد نے بنا کے صداقت کی تصویر رکھی ہے
جلتے ہیں اہل جنوں ہر ذرے کے چمکنے سے
ہر شاہین نے اپنے آباء کی توقیر رکھی ہے
ہر دیار روشن رہا ہے تیرے برگزیدیوں سے
قلم وہنر سے ہر میدان کی تفسیر رکھی ہے
لگتا ہے سہیلؔ کچھ اور ملے گا اس حسین چمن کو
اللہ نے بھی دعا کی قبولیت میں تاخیر رکھی ہے

سہیل احمد
ڈوڈہ مرمت
[email protected]

اذیتوں کی داستاں
اذیتوں سے جم گیا ہے تیرا لہو اندر سے
بن کے وہ طاقت برسے تیرے قلم کے سفر سے
زور قلم تیرا ایسا ہو کہ تو مِثلِ صدف بن جا
دشت کی پیاس بُجھے تیرے علم کے سمندر سے
یہ خاموشی اور یہ تنہائی سہیلیاں ہیں تمہاری
سارا جہاں حیراں ہوجائے تیری اک خبر سے
فرازی پہ اکثر کیوں بیٹھی رہتی ہو تم
ستاروں کو بھی روشنی ملے تیری اک نظر سے
تیرے نگہبانوں کا تبسم سدا بر قرار رہے
مسرت کا بھی پھول کھلے تیرے ہی گھر سے
قرابت داری سے تو مجروح ہوئی ہے یہاں
سارے شکوے باہر نکال اپنے اس جگر سے
بن جا رہبر صداقت کا سب کو پتہ دے
توقیر کا یہ مکُٹ کبھی نہ اُترے تیرے سر سے
بےعیب۔ترو تازگی اور فرحت بخش ہے تو
ہستی کیا کہے گی تجھے نکل جا اس ڈر سے
اپنی تقدیر خود لکھ تو اپنے ہی قلم سے
نورعین سب کو ملے تیرے ہی در سے
خدا تیرے کردار کو سدا فرازی بخشے
کہ سنگ دل بھی پغل جاے تیرے لہجے کے اثر سے
ہزار شکوے ہیں تجھے اس راشدؔ سے مگر
ہے نہ ممکن کہ نکالے وہ تجھےاپنے جگر سے

راشد اشرف
کرالہ پورہ، چاڈورہ

اساتذہ حضرات کو خراجِ تحسین
ظلمت کدوں میں نور کا مینار آپ ہیں
دانشورانِ قوم کے سالار آپ ہیں
کرتی ہے جہل کا جو زمانے سے خاتمہ
علم و ہنر کی ایسی ہی تلوار آپ ہیں
دریا ے علم و فن میں ہمارے ہیں خضر آپ
اور حکمتوں کی ناؤ کی پتوار آپ ہیں
بھٹکے کبھی بھی ہم جو رہِ مستقیم سے
دِکھلانے راستہ ملے ہر بار آپ ہیں
ممکن نہیں کہ آپکا احسان ہو اَدا
عزت کے احترام کے حقدار آپ ہیں
انگلی پکڑ کے جن کی ملیں منزلیں قمرؔ
وہ رہنما و راہبر و یار آپ ہیں

عمران قمر
رکن پور، شکوہ آباد ، اتر پردیش
موبائل نمبر؛ 8920472523