افتخار اے درابو
اس منصوبے کے شروع ہونے کے فوراً بعد ، جیسا کہ کشمیر میں ہوتا ہے، لوگوں نے طویل عرصے سے نالہ مار پروجیکٹ کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے ساتھ سازشی تھیوریاں وابستہ کر رکھی ہیں۔ ہم اگلے حصے میں ان پر مزید تفصیل سے بات کریں گے۔اس کے علاوہ، پروجیکٹ کے لاگو ہونے کے بعد، لوگوں نے مار کے بارے میں یاد دلانا شروع کر دیا ، جیسا کہ یہاں معمول ہے۔ ریاست کے انجینئروں کو خوبصورت نالہ مار کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ان پر بدستور کوتاہ اندیشی اور تنگ نظری کا الزام لگایا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ 50 اور 60 کی دہائیوں میں نالہ مارکو درپیش مسائل اور ان کے حل کرنے کے لئے کوئی بہتر منصوبہ اور متبادل تصور نہیں کر سکے۔اس کی تعمیر کے بعد سے، نالہ مار ڈیولپمنٹ پروجیکٹ ریاست کے انجینئروں کے گلے میں ہڈی کی طرح لٹک رہا ہے کیونکہ ان پر ایک ایسی تجویز پیش کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا جاتا ہے جو مار کی انفرادیت کو برقرار رکھ سکتا۔
سازشی نظریات:۔ چونکہ نالہ مار روڈکی تعمیر میں چند سو مکانوں کی حصولی اوران مکانوں میں مکین لوگوں کی بحالی شامل تھی، ان میں سے ایک مشہور سازشی تھیوری یہ رہی ہے کہ اس منصوبے کا تصور اور اس پر عمل درآمد صرف ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ووٹ بیس کو ختم کرنے کیلئے کیا گیا تھا ،جس کی سابق آبی گزرگاہ کے ساتھ مضبوط وابستگی تھی۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ نالہ مار سڑک پرانے شہر کے اندرونی حصوں میں سیکورٹی فورسز کو آسانی سے رسائی فراہم کرنے کیلئے بنائی گئی تھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ نالہ مار سڑک کی تعمیر نے پرانے شہر کے اندرونی حصوں تک رسائی کو کافی حد تک بہتر کیا جو ہمیشہ امن و امان کے مسائل کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ تاہم یہ تجویز کرنا کہ پروجیکٹ پرانے شہر کے اندرونی حصوں میں سیکورٹی فورسز کو آسان رسائی فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، یقینا ایک لغو ہے۔
جہاں تک رائے دہندگان کے کسی مخصوص گروہ یا حصے کو منقطع کرنے کے نظریہ کا تعلق ہے،آئیے ،اس کے متعلق نمبروں پر ایک سرسری نظر ڈالیں۔مار پلان کے تحت 650 خاندانوں پر مشتمل کل 400 مکانات کو منتقل کیا جانا تھا۔ان میں سے کچھ خاندانوں کو قریبی علاقوں میں منتقل کیا جانا تھا اور کچھ کو پلاٹ دئیے جانے تھے۔ اگر ہم تصور کریں کہ تقریباً 600 خاندانوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کیا گیا تھا، اور اوسطاً خاندانی حجم 8 افراد کے قریب تھا، تو ہم تقریباً 5000 افراد کی بات کر رہے ہیں۔اس میں سے تقریباً نصف اہل ووٹرہوں گے، باقی نصف ووٹ ڈالنے کی کم سے کم عمر سے کم ہوں گے اور کچھ ایسے بزرگ بھی ہوں گے جن کے ووٹ ڈالنے کا امکان نہیں تھا۔ اس طرح، کل تقریباً 2500 ووٹ ممکنہ طور پر 3 اسمبلی حلقوں عیدگاہ، خانیار اور حبہ کدل پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر اسمبلی حلقہ میں اوسطاً 800 ووٹ،یہ فرض کرتے ہوئے کہ ان میں سے 70فیصد کا تعلق کسی خاص پارٹی سے تھا، جو فی حلقہ 500 سے 600 ووٹوں کو موثر طریقے سے منتقل کرنے میں کوئی اضافہ نہیں کرتا ہے۔یہاں ہم بہت ہی زیادہ اعداد و شمار قارئین کو تعداد کا احساس دلانے کے لئے پیش کر رہا ہوںجبکہ حقیقی تعداد اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ یقینی طور پر اسمبلی الیکشن میںاتنی کم تعداد کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہئے۔ مزید یہ کہ اْس وقت جس انداز میں انتخابات ہوئے، اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ الیکشن جیتنا یا حکومت سازی کا انحصار ان تینوں حلقوں میں ہونے والی ووٹنگ پر تھا۔
ڈیزائن کی تبدیلی :۔ بہت سے لوگ یہ جاننے کیلئے متجسس ہیں کہ نالہ مار ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے منظور شدہ ڈیزائن کو کس نے تبدیل کیا اور سڑک کے نیچے گٹر بنانے کی تجویز کوکس نے حذف کیا۔ میرے خیال میں زیادہ مناسب سوال ‘ڈیزائن کو کس نے تبدیل کیا‘‘کے بجائے ‘ڈیزائن کیوں تبدیل کیا گیا‘‘ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ دونوں سوالوں میں سے کسی کا جواب کسی بھی حد تک یقین اور اعتماد کے ساتھ آسانی سے دستیاب ہے۔جب نالہ مار پروجیکٹ پر عمل درآمد شروع کیا گیا تو اصل ڈیزائن کے مطابق پہلے 1.5 کلومیٹر (تقریباً بوہری کدل تک) کے لئے ایک پری کاسٹ پائپ گٹر بچھایا گیا لیکن بعد میں ڈیزائن کی تجویز کو تبدیل کر کے پری کاسٹ پائپ گٹر کو ختم کر دیا گیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ غلاظت (سڑا ہوا کچرا،انسانی فضلہ ، گارا وغیرہ) سے بھرے چینل میں اتنے ہی گہرے مین ہولز کے ساتھ ایک گہری سیوریج لائن (12 فٹ سے لے کر 25 فٹ سے زیادہ گہرائی تک) بچھانا ایک بڑامشکل اور وقت طلب معاملہ ہے۔نیز اس میں ایک بڑی لاگت بھی شامل ہے۔یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جس وقت نالہ مار پروجیکٹ پر عملدرشروع کیاگیا تھا، اس وقت جو کھدائی کرنے والے (JCB) ،جو ہم آج کل عملی طور کسی بھی تعمیراتی جگہ پر دیکھتے ہیں ،اْس وقت دستیاب نہیں تھے اور تمام کام دستی طور پر انجام پاتے تھے۔
اس طرح گٹر کے بچھانے کوترک کرنے کی ممکنہ وجہ ،کام کی سْست رفتاری اور سیوریج کے پائپ بچھانے سے وابستہ مشکلات معلوم ہوتی ہیں۔ 70 کی دہائی کے وسط میں نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ، جب پروجیکٹ پر عمل درآمد شروع ہو چکا تھا، تو اس پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے تھی اور پروجیکٹ پر تیزی سے عملدرآمد کا مظاہرہ کیا جاناچاہئے تھا تاکہ عام لوگوں کو یہ پیغام دیا جاتا کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کی رفتار کو تیز کر رہے ہیں۔اس کے برعکس جیکٹ کے سیوریج ورکس بدقسمتی کا شکار ہوئے۔
پروجیکٹ سے سیوریج یا انسانی فضلہ کی نکاسی کا نظام تعمیر کرنے کو حذف کرنے کے ساتھ ساتھ دکانوںکو چھوڑ کر سنگل، دو اور تین کمروں کے فلیٹس اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی پروجیکٹ سے حذف کر دیا گیا۔انجینئرایم اشرف فاضلی اور انجینئر عبدالسلام شیخ،سابق وائس چیئرمین سری نگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، جونالہ مار ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو عملیانے والی ایجنسی تھی ،نے ایک مضمون میںدودلچسپ انکشافات کئے۔
(۱)یہ کہ سڑک کے نیچے گہرا گٹر بنانے کی تجویز کو مالی مجبوریوں کی وجہ سے ترک کر دیا گیا تھا۔
(۲)چونکہ پروجیکٹ کا ہائوسنگ جزو اقتصادی طور فعال نہیں تھا اور یہ کہ حکومت ہڈکو کو اس سے لئے گئے قرض کیلئے سود ادا کر رہی تھی، اس لئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نے پروجیکٹ کے ہائوسنگ (مکانات) والے حصے کو حذف کرنے اور ہڈکوکو رقم واپس کرنے کی ہدایت کی۔
(مضمون جاری ہے۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلے ہفتہ شائع کی جائے گی۔)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)