آج ہم آپ سبھی کو کچھ ایسے دوغلے انسانوں سے روبرو کروانا چاہتے ہیں جو ملک وملت کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں ، جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ان کی شان میں یہی کہنا درست ہوگا بغل میں چھری منہ میں رام رام۔ ہمارے ملک میں فی الوقت 7 طاقتور عورتوں کا اہم کردار ہے اور وہ7 طاقتور عورتیں حکومت کے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان میں وزیر خارجہ سشما سوراج ، کپڑا منتری اسمرتی ایرانی۔ وزیر آبپاشی اومابھارتی ۔ مرکزی وزیر برائے بہبودی اطفال و نسواں مینکا گاندھی ۔ وزارت اقلیتی بہبودی کی سابقہ مرکزی وزیر نجمہ ہبت اللہ ۔ وزیر دفاع نرملا سیتارمن، وزارت تحفظ غذائیات ہرشمیت کور بادل۔ یہ ہیں ہمارے دیش کی طاقتور سیاست دان عورتیں،جو چاہیں تو کچھ بھی کرسکتی ہیں کیونکہ ان کے ہاتھوں میں حکومت ہے۔ ان کے باوجود بھی ہمارے ملک کے عورتوں کی حالت اتنی خستہ وپامال ہے کہ یہ آج کہیں بھی محفوظ نہیں اور یہ ہماری حکومت کے لئے شرم سے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات ہے۔
ہم سمجھتے تھے کہ عورت کا درد اور اس کی تکلیف صرف ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہےمگر آج ہر بات اُلٹی ہورہی ہے۔ ایسی بااختیارعورتوں کا ہونا نہ ہونا ناری ذات کے لئے یکسان ہے اورجو حکومت اپنی عوام کو خاص کر عورتوں اور بچوں کی حفاظت نہیں کرسکتی، جواپنے ملک کے قوانین کو خود فالو نہیں کرسکتی، انہیں اقتدار پہ براجمان رہنے کا بھی کوئی اخلاقی حق نہیں ہے۔ آج رکشک کہلانے والے خود بھکشک بن چکے ہیں۔ جن پہ ہم نے آنکھ موندھ کر بھروسہ کیا تھا، جن سے دیش کے عوام نے کئی امیدیں جوڑی تھیں ، جن کے ہاتھوں میں حکومت،طاقت سونپ دی، جن کا قدم قدم پہ ساتھ دیتے رہے، آج وہی گِدھ بنے عورتوں کی عظمت کو نوچ رہے ہیں اور جنہیں تخت پہ بٹھایا گیا ہے وہ تو دیش ودیش گھومنے پھرنے ،اپنی جھوٹی بڑھائی جتلانے میں مصروف ہیں۔ ایسے حالات میں دیش کی عورتیں جائیں تو کہاں جائیں؟ کس سے فریاد کریں؟ کس در پہ جاکر انصاف کی گہار لگائیں؟ جہاں گائے کو ماتا کا درجہ دے کر حقیقی ماؤں کو نوٹ بندی کےنام پر تپتی دھوپ میں بینکوں کی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کر دیا جائے وہاں ناری شکتی کی بات کر نا بھینس کے آگے بین بجاناہے ۔ اصل میں یہ ایسی ذہنیت کے لوگ ہیں جس نے انہیں اپنی بیویوں کو ان کے ازدواجی حقوق سے محروم رکھنے کی پٹی پڑھائی اور یہی حضرات اب آئے ہیں دوسری قوم کی عورتوں کے حقوق کی بات کرنے ۔ حقیقتاََ ان کا مرض دکھاوا ہے ، ان کی طبیعت فتنے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ جو انسان خوداپنی ماں اوربیوی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے وہ عورت ذات کو کاہے کوانصاف دے سکے گا؟سکتے یہی وجہ ہے آج کے کل یُگ میں گائے کے لئے ایمبولینس ہے اور غریب عورتیں راستوں پہ کھلے عام بچوں کو جنم دے رہی ہیں، یا ہسپتالوں میں مر کر اپنے غریب خاوندوں کے کندھو ں پر چالیس چالیس میل پیدل چل کرگھر واپس ہوتی ہے۔ کیا یہ واقعات ہمارے ملک کے لئے شرم ناک نہیں ہیں۔۔ بنا کسی میڈیکل سہولیات کے آئے دن کئی بچے دم توڑ جاتے ہیں، اور یہ ہیں کہ ان جیتی جاگتی زندہ دیویوں کے بارے میں نہیں سوچتے جب کہپتھر سے بنی مورتیوں کو دیوی کا درجہ دے کر ووٹ بٹورنے کا دھندا کر تے ہیں۔ آخر ان زندہ دیویوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں؟ کہنے کو تو عورت کو کئی دویویوں کے نام سے پکارا جاتا ہے: دُرگا، سرسوتی، لکشمی، کالی، امبے، اننا پورنا، اور پتہ نہیں کیا کیا اور انہیں دیویوں کی اندھی عقیدت میں معصوم لڑکیوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔ جس دیش میں پتھر کی مورتیوں کے آگے گن گان کئے جاتے ہیں اور دھوکے باز، کمینے، شیطانی فطرت کے رام رحیم اور آسارام جیسے سوامی، انتر یامی، بابا کہلانے والے دھرم کے سوداگر عورتوں کی عزت تار تار کرکے ان کی زندگیاں تباہ کریں ، وہاں ناری شکتی محض ایک سیاسی چھلاوا ہے۔ سب سے زیادہ چونکادینے والی گھناؤنی بات تو یہ ہے کہ ان ڈھونگیوں کے ہوس کی شکار عورتوں کے ساتھ ساتھ کم عمر لڑکیاں ، ننھی بچیاں، بزرگ عورتیں اور معصوم بچے بھی بنتے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کوئی سخت قانونی اقدامات نہیں کرتی کیونکہ ایسے تمام دھوکے باز ،فریبی، ہوس کے پجاری ، باباؤں سے بڑے بڑے منتریوںکی سانٹھ گانٹھ ہےاور انہیں حکومت اپنے ووٹ بینک کے طور استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنہیں مجبور ومظلوم عورتوں کے ساتھ منہ کالا کر نے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے ،وہ شرافت کا چولا اوڑھے سینہ تان کر ہر دن نئے شکار کی تلاش میں کھلے عام گھوم رہے ہوتے ہیں، نہ پولیس ان کے تعاقب میں ہے نہ عدالت نہ ان کی کالی کر توتوں کو روکتی ہے۔ جب اس گھٹیا ذہنیت والوں کے ہاتھوں میں ملک کی کمان ہو تو ہر عورت تو عورت پہلوان مردوں کا جینا حرام کیوں نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ دیش کی ہر ستی ساوتری ہر دن ہر لمحہ خوف اور ڈر کے سائے میں گزر بسر کر رہی ہے، ان کی جان اور آبرو سب کچھ داؤ پہ لگی ہوئی ہے ۔ انتخابات کے وقت عورتوں کی تقدیر بدلنے کی جو بڑی بڑی باتیں کی گئی تھیں جن میں عورتوں کے حقوق ،ان کا تحفظ ، ان کی بااختیاری اور وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ’’ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ سب جھوٹے اور کھوکھلے وعدے ثابت ہورہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اس لئے ہےکہ عورت کے نام سے انتخابی جیت حاصل کر کے عورت سے ہی گندا کھیل کھیلا جائے ؟ اور جہاں کہیں ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو ایسی بے باک و نڈر بہادر عورتوں کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ان کی حق گوئی کو دبانے کی جی توڑ کوششیں کی جاتی ہیں اور ناکام ہونے کے صورت میں حق کی آواز کو دبانے کے لئے گوری لنکیش کے قتل عمد کا نسخہ آزمایا جاتا ہے اور پھر ہمارا اَندھا قانون پوری عمر تحقیق وتفتیش اور ثبوت اکٹھا کر نے کے نام پہ وقت گزاری کر دیتا ہے۔ ہمیں تو اپنے ملک کے نظام انصاف پہ بھی افسوس ہوتاہے کہ وہ ایک مضبوط دستور میں رہ کربھی عورتوں کی حفاظت کے حوالے سے بے بس و لاچار نظر آرہا ہے ۔ نڈر و بے باک حق گو صحافی گوری لنکیش کا قتل ہوئے اتنے دن گزر چکے ہیں مگر پولیس قاتلوں کا پتہ لگانے میں ابھی بھی ٹامک ٹوئیاں کر رہی ہے یا سب کچھ جان کر بھی انجان بنے اپنے باسز کوی جی حضوری کر تی ہے ۔ ایک جانب یہ ہورہاہے اور دوسری جانب ہمارے مہیلاادھیکار کے نام پر سرگرم دیش بھکت میمورنڈم، ریلیاں اور جلوس نکال کر اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داریاں پوری ہوئیں ۔ شاید ناری کلیان کے ان دعویداروں اور تھکے ہوئے ہمدردوں کو پھر سے جگانے کے لئے ایک اور گوری لنکیش کو اپنا بلیدان پیش کر نا ہوگا ، تب انہیں سمجھ میں آئے گا کہ خواتین کے ادھیکاروں کی مدافعت کا سفر کتنا طویل اور صبر آزما ہے ۔ یہ سفر ۸ ؍ مارچ کو عالمی یوم خواتین کی تقریر بازیوں اور جشن اورہنگاموں پر ہی موقوف نہیں بلکہ اسے صدیوں جاری رہنا ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ سچائی اورحقیقت پسندی کے دشمن گوری لنکیش کے قاتل ابھی بھی کسی اور گوری لنکیش کا خاتمہ کرنے کی تاک میں لگے ہوں، شاید اب ان کے گندے اور مذموم ارادے اور بھی زیادہ بڑھ چکے ہوں کیونکہ حکومت نے باؤلوں کو کھلا چھوڑا ہے کہ جو مرضی کریں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کی طرح دیش بھر کی معصوم لڑکیوں کو کھلے عام چھیڑا جارہا ہے ۔ راہ چلتے ان کے ساتھ گندی حرکتیں کی جارہی ہیں ، ان کی تذلیل اور عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے ۔ حوصلہ شکنیوں کےباوجود جب لڑکیاں تھوڑی سی ہمت جٹاکر حکومت سے اپنی عزت اور تحفظ کی مانگ کرتی ہیں تو انہیں پولیس کی مردانگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہےا ور بر سر احتجاج معصوم لڑکیوں کو اَنٹی نیشنل کہہ کر پولیس کے ڈنڈوں سے پٹوایا بھی جاتا ہے۔ ان پرمقدمے بھی قائم کئے جاتے ہیں، انہیں لہولہان کیا جاتا ہے۔ جیسے انہوں نے انصاف کا مطالبہ نہیں بلکہ کوئی کبیرہ گناہ کردیا ہو۔ ایک لڑکی، عورت یا معصوم بچی پر ہاتھ اٹھانا کہاں کی مردانگی ہے ؟ دراصل یہ مردانگی نہیں بلکہ سراسر نامردی ہے ۔ مختصر یہ کہ جو مرد عورت کا استحصال کرے ، اس کے حقوق کو دبائے، اس کی عزتِ نفس کو پامال کرے ،وہ کبھی مرد کا بچہ ہونہیں سکتا بلکہ مردانگی کے ماتھےپر کلنک ہے ۔ آکر پر آج یوم خواتین کے موقع پر ایک بات یاد رکھیں کہ عورت ایک چنگاری کا نام ہے جسے ظلم وزیادتی اور انصافی کےساتھ بجھانے کی جتنی نامرادپھونکیں مارو گے وہ بھڑک کر آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوجائے گی اور جس کسی نے باحیا اور زندہ ضمیر عورت کی خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھا وہ دنیا کا سب بےوقوف انسان ہے۔ جس دن عورت اپنی خاموشی کو توڑتی ہے وہ کسی بھی ظالم وگناہ گارکی دھجیاںبکھیر کر رکھتی ہےکہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے ۔ آج ۸ ؍مارچ کو یہی پیغام دنیا کو ناری شکتی کے نام سے جانا چاہیے کہ ع
اب نہ سہیں گے ہم اتیاچار
اب کی بار کریں گے ہم پلٹ وار
فون نمبر 7975189131