ڈاکٹر عریف جامعی
پنڈت کلہن نے کہا تھا کہ ’’اس سرزمین (کشمیر) کی تسخیر کسی کے زور بازو سے ممکن نہیں، اسے روحانیت کی طاقت ہی فتح کرسکتی ہے!‘‘ بحیثیت ایک زیرک مؤرخ کلہن کو خبر تھی کہ کسی بھی خطے کو تیغ و تفنگ سے تاخت و تاراج تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو مکمل طور پر مسخر کرنے کے لئے یہ کوئی کامیاب نسخہ نہیں۔ دراصل کسی بھی خطۂ زمین کی پائیدار تسخیر کے لئے وہاں کے باشندوں کا سرنگوں ہونا کافی نہیں ہوتا، بلکہ فاتح کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مفتوح قوم کو آسودۂ خاطر کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے، یعنی ان کے دلوں کو سکون کا سامان بہم پہنچایا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب خطۂ مذکورہ کے باشندوں کی اقدار اور روایات کا احساس کرتے ہوئے ان کا پاس و لحاظ کیا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مفتوحہ سرزمین کے لوگ نئی درآمد ہونے والی روایات کو برتر پائیں گے، تو وہ ان کو ضرور قبول کریں گے۔ تاہم درآمد شدہ روایات کے قبول عام کے لئے یہ بات نہایت ضرووی ہوتی ہے کہ فاتح ایک اچھا خاصا وقت مفتوحہ خطے میں گزارے اور اپنے قیام کو دوام بخشنے کے لئے ایک جواز فراہم کرسکے۔ اگر ایسا نہ ہو تو فاتح کو فقط ایک طالع آزما کہہ سکتے ہیں، جو اپنی مہم جوئی کے دوران تیر و نشتر سے تو کام چلاتا ہے، لیکن ان کے ذریعے لگائے جانے والے زخموں پر مرہم رکھنے کے ہنر سے عاری ہوتا ہے۔
کشمیر کے سلسلے میں ’’زلجو‘‘ اور ’’اچالا‘‘ کے چودھویں صدی کی ربع اول کے حملوں کو ہم اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ دونوں جنگجو آندھی کی طرح وارد کشمیر ہوئے اور کشمیر کو تہہ و بالا کرتے ہوئے طوفان کی طرح کشمیر کو لہولہان کرکے چلے گئے۔ پنڈت جون راج کے بیان کے مطابق ان حملہ آوروں میں سے اول الذکر نے کشمیر کی کچھ ایسی ہی حالت کردی جو ایک کھیت کی فصل کی کٹائی کے بعد ہوتی ہے۔ جہاں کہیں بستیاں زیادہ نہیں اجڑی تھیں وہاں بھی اہلیان کشمیر پر ظلم و ستم کا کچھ ایسا حال تھا جو ٹڈی دل لہلہاتے کھیتوں کا کرتے ہیں۔ شاید اسی صورت حال کا اظہار اس کشمیری ضرب المثل میں کیا جاتا ہے جس میں ’’کشمیر میں صرف گیارہ گھرانے باقی رہنے کی بات کی جاتی ہے‘‘ (کئشیر رودیا کہے گرء) یا جس میں ’’گیارہ میلوں کے بعد چراغ جلنے کا عندیہ دیا جاتا ہے!‘‘ (کہہ میلہ دز ژونگ!) بات اگرچہ مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے، تاہم اس سے کم از کم ایسے حملوں کی ہلاکت خیزی کا ادنیٰ سا تصور کیا جاسکتا ہے۔
ان حملوں کے تناظر میں یہ بات بڑی ہی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ دونوں بار کشمیر کا راجا (سہدیو) کشتواڑ فرار ہوتا ہے اور کشمیر کو بے یار و مددگار چھوڑا جاتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی نہایت اطمینان بخش ہے کہ دونوں بار ملکہ کوٹہ رانی کشمیر اور اہالیان کشمیر کو سہارا دیتی ہیں۔ لیکن دوسرے حملے کے وقت جو شخصیت کشمیر کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگاتی ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ وادئ سوات کے ایک جانباز یعنی شاہ میر ہوتے ہیں، جو سہدیو کے دور ہی میں وارد کشمیر ہوئے تھے اور جنہیں ان کی فطری قابلیت کی بنا پر بارہمولہ کے علاقے میں ایک جاگیر ملی تھی۔ شاہ میر کا ذکر یہاں پر اس لئے ضروری ہے کیونکہ ایک تو انہوں نے کوٹہ رانی کے ساتھ مل کر کشمیر پر اس دوسرے حملے، جو پہلے حملے کی طرح تباہ کن ثابت ہوسکتا تھا، کو پسپا کیا اور دوسری طرف انہوں نے ہی سلطنت کشمیر کی بنیاد ڈالی جس کے حکمران شاہ میری سلاطین کہلائے۔ اگرچہ یہ سلاطین مجموعی طور پر جہاں بین، جہاگیر اور جہاں آرا تھے، تاہم ان میں سے ایک سلطان یعنی سلطان زین العابدین نے کشمیر کو ایک مثالی ریاست بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کشمیری ’’بڈ شاہ‘‘ کے لقب سے جانتے اور یاد کرتے ہیں۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ شاہ میر، جنہیں ہم سلاطین کشمیر کی فہرست میں سلطان شہاب الدین کے طور پر جانتے ہیں، کی پہچان میدان حرب و ضرب میں ایک بارعب اور جرأت مند عسکر (سپاہی) کے طور پر ہوتی ہے، کی فن سپاہ گری پر مضبوط گرفت اور کامل شجاعت کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو خدمت خلق میں صرف کرنا جانتے تھے۔ واضح رہے کہ خدمت خلق کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی تنگ دست کی مالی معاونت کی جائے، بلکہ اصل اور بنیادی خدمت خلق یہ ہے کہ تاریخ کے فیصلہ کن مراحل پر قوم کے ستارۂ عروج کو ڈوبنے نہ دیا جائے۔ شاہ میر کے لئے اپنے میزبانوں کی خدمت کرنا اور بھی ضروری تھا کیونکہ انہوں نے ان کو بے یار و مددگار پاکر نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ ایک بہت بڑی جاگیر کا مالک بھی بنادیا تھا۔ بہرحال انہوں نے اس احسان کا بھرپور معاوضہ ادا کیا ،جب انہوں نے کوٹہ رانی کے ساتھ مل کر کشمیر کی سالمیت کو محفوظ کیا اور کشمیریوں کو ’’اچالا‘‘ کی غارتگری سے بچالیا۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت جون راج نے شاہ میر کو اپنی راج ترنگنی میں نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جون راج کا کہنا ہے: ’’جس طرح ایک ندی اپنے کناروں پر لوگوں کو (طغیانیوں میں) پناہ دیتی ہے، کچھ اسی طرح الا (یعنی اللہ) پر یقین رکھنے والے اس شخص (یعنی شاہ میر) نے لوگوں کو بچالیا۔‘‘
ایک غیر مسلم مؤرخ کے قلم سے ایک مسلمان کے ایمان و یقین کے اس اعتراف کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ شاہ میر دراصل فعال روحانیت (سپرچویلٹی ان ایکش) کے علبردار تھے۔ یہاں پر اس بات کا اعادہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شجاعت، جرأت اور دلیری کا اعلی مقاصد کے لئے بروقت استعمال کسی بھی صورت میں روحانیت سے خارج نہیں ہے۔ یہی دراصل روحانیت کی تعمیم ہے جو روحانیت کو طبقۂ خواص کی جاگیر (جسے ہم روحانیت کی تخصیص کہہ سکتے ہیں) کے طور قبول نہیں کرتا، بلکہ اسے ہر ایک کے لئے قابل عمل اور قابل حصول بنادیتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات نہایت ہی اطمینان بخش ہے کہ کشمیر کا رخ کرنے والے اکثر و بیشتر افراد نے روحانیت کو ایک طرح سے (اپنی اپنی وسعت کے مطابق) عام کیا اور ہر خاص و عام کو اس جذبے سے روشناس کرایا۔
روحانیت کے اسی سیدھے سادے تصور نے لداخی رینچن کا صدرالدین بننے کے لئے راستہ اس وقت ہموار کیا تھا جب وہ سید شرف الدین عبدالرحمٰن بلبل شاہ کے ہاتھوں پر، اسلام کے نظریۂ حیات کو تسلی بخش پاکر، مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ تاہم کشمیر میں روحانیت کا یہ تصور سید علی ہمدانی کے ذریعے کچھ اس طرح عام ہوا کہ لوگ ’’دست بہ کار، دل بہ یار‘‘ کی مصداق کارہائے جہاں میں مصروف رہکر بھی اپنے اعلی مقصد زندگی کو نہیں بھولے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگرچہ سید سے قبل بھی صوفیاء کرام کشمیر پہنچ چکے تھے، لیکن سید نے دعوت حق کی روحانی بنیادوں کو اتنا منظم اور محکم کیا کہ آوازۂ حق کی گونج ہر گھر میں سنائی دی جانے لگی۔ اپنے علم و عرفان اور تجربے و مشاہدے کو پختہ تر کرنے کے لئے سید نے بیس سال (۷۳۳ ھ تا ۷۵۳ ھ) تک دنیا کے مختلف علاقوں کی سیر و سیاحت کی۔ اس سلسلے میں سید کے مرید خاص، نورالدین جعفر بدخشی نے سید کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’میں نے تین بار مشرق سے مغرب تک سفر کیا۔ بحر و بر میں عجائب دیکھے۔ ہر بار جس شہر اور سرزمین میں گیا وہاں نئی رسمیں اور عادتیں دیکھیں۔ ۔۔۔۔۔۔ (اس کا مقصد یہ تھا) کہ طالبان حق کی جو اطراف دنیا میں ہیں (ان کو) رشد و ہدایت کی تعلیم دوں کیونکہ اقامت میں اس قسم کا افاضہ و استفاضہ ممکن نہیں ہوتا۔‘‘ (خلاصتہ المناقب)
ظاہر ہے کہ سید کی سیر و سیاحت کی اصل غرض و غایت یہی تھی کہ خلق خدا کی رشد و ہدایت کا اہتمام کیا جاسکے۔ اس لئے سید کے ورود کشمیر کا بھی یہی مقصد تھا کہ یہاں کے خاص و عام کی راہ یابی کا سامان کیا جائے۔ جعفر بدخشی کے بیان کے مطابق سید کی ہر سیاحت اگرچہ اشارۂ (غیبی) خداوندی کے تحت ہی ہوا کرتی تھی، تاہم آپ کی سیاحت کشمیر، جس میں ایک عظیم مقصد پنہاں تھا، کو خصوصی تائید ایزدی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جانب سید کی توجہ خواب کے ذریعے مبذول کرائی گئی جس میں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس کام کی طرف راہنمائی کی۔ یہاں پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ خدا کے برگزیدہ بندوں کو اس قسم کے تجربات ہوتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کا صوفیانہ مکاشفہ (مسٹکل ایکسپیرینس) امام غزالی کو بھی ہوا تھا جب امام نے حجاز مقدس، شام، عراق اور فلسطین میں اپنی روحانی تشنگی کو دور کرنے کے لئے مراقبوں اور مجاہدوں کا اہتمام فرمایا تھا۔
اس لئے سید علی ہمدانی کے بارے میں یہ بات بالکل محل نظر معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے کشمیر کا سفر صرف اس لئے کیا تھا کہ آپ امیر تیمور کے غیض و غضب سے بچنا چاہتے تھے۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ سرزمین کشمیر پر قدم رنجہ فرمانے سے قبل سید نے سید تاج الدین اور سید حسین سمنانی کو کشمیر بھیجا تھا، جو بالترتیب وسطی کشمیر (سرینگر) اور جنوبی کشمیر (کولگام) میں سکونت پذیر ہوکر اہلیان کشمیر کی ہدایت کا سامان کرنے لگے تھے۔ سید علی ہمدانی کے منظم دعوتی لائحہ عمل کو سمجھنے کے لئے اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ سید سے قبل، سید کے ساتھ اور سید کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں صوفیاء کرام وادیٔ کشمیر میں داخل ہوئے اور کشمیر کی روحانی تشکیل نو کے کار عظیم میں سرگرم عمل ہوئے۔ ان ہی بزرگوں کی بدولت اسلام کی روحانی اقدار سے کشمیری نہ صرف روشناس ہوئے بلکہ انہی اقدار نے کشمیر کی تشکیل اسلامی کو ممکن بنایا۔
تاہم کشمیر کی تشکیل اسلامی کے پورے عمل میں سید کے روحانی فکر و عمل کی بنیادی اور مرکزی اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں سید کا ’’رسالۂ فتوتیہ‘‘ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں سید فرماتے ہیں کہ تمام اشرف منازل، اعلی درجات اور اخروی سعادت کا حصول اللہ تعالی کی اطاعت اور عبادت پر منحصر ہے۔ اب جہاں تک عبادت کی نوعیت کا تعلق ہے تو قلبی، بدنی اور مالی عبادات اس کی بنیادی قسمیں ہیں۔ اسی طرح اعلی مراتب کے حصول کے لئے سید نے دس قاعدے تجویز فرفائے ہیں، جنہیں آپ نے اپنی مشہوت تصنیف “رسالۂ دہ قاعدہ” میں اس طرح بیان کیا ہے: (۱) توبہ: یعنی ہر اس چیز سے گریز کرنا جو راہ حق میں حائل ہو۔ (۲) زہد: یعنی مال و جاہ اور علائق دنیاوی سے دست بردار ہونا۔(۳) توکل: یعنی وسائط اور اسباب کو اللہ کی ذات پر چھوڑ دینا۔ (۴) قناعت: یعنی نفسانی آرزوؤں، ہوس اور بہیمیت کو ترک کرنا۔ (۵) عزلت: یعنی سب سے علیحدہ اور کنارہ کش ہونا۔ (۶) ذکر: یعنی غیر حق سے اختیاری طور پر منہہ موڑنا (۷) توجہ: یعنی حق کے بغیر کسی کو محبوب و مطلوب نہ سمجھنا۔ (۸) صبر: یعنی نفسانی لذات کو ترک کرکے عبادات و ریاضات میں ثبات و استقامت اختیار کرنا۔ (۹) مراقبہ: یعنی باطنی تصفیہ و تزکیہ کے ذریعے مردہ دل کو انوار الہی سے ابدی حیات عطا کرنا۔ (۱۰) رضا: یعنی اپنی رضا سے محبوب (حق) کی رضا میں داخل ہونا۔
ظاہر ہے کہ انہی جیسے روحانی اصول و قواعد، جو خاص و عام کے لئے قابل عمل ہیں، سے تحریک پاکر اہلیان کشمیر تجلّیات عرفان و معرفت سے متعارف ہوئے اور انہی کے ذریعے ملت اسلامیہ کشمیر کی تقدیر کی تشکیل نو ممکن ہوئی۔ بقول علامہ:
سید السادات سالار عجم
دست او معمار تقدیر امم
(مصنف محکمۂ اعلی تعلیم جموں و کشمیر میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کام کرتے ہیں)