پروفیسر گیر محمد اسحاق
منشیات کا غلط استعمال، جسے درد کش ادویات اورتشخص شدہ دوائیوں کے علاوہ متعدد مادوں اور غیر مستحکم سالونٹس کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے’’سبسٹنس یوز ڈس آرڈر‘‘کہا جاتا ہے، ایک خود ساختہ مصیبت کے مقابلے میںیہ ایک حیاتیاتی ۔نفسیاتی ۔سماجی بیماری یا عارضہ ہے جس کی مخصوص سماجی۔سیاسی۔اقتصادی اور طبی وقانونی جہتیں ہیں۔
اس بیماری کے بنیادی عوامل، جو کہ دیر سے ایک خوفناک عفریت کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو ہمارے ابھرتے ہوئے نوجوانوں اور ترقی پذیر قوم کو نگلنے اور اپنی لپیٹ میں لینے کیلئے تیار ہیں، وہ بھی محض جذباتی تکلیف یانشہ کرنے والوں کی خوشی کی خواہش سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور متنوع ہیںاور اسی طرح اس کے الجھانے والے اور خطرے کو بڑھانے والے عوامل بھی ہیں۔
لہٰذا، اس لعنت کو تمام متعلقہ زاویوں اور نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس سے متعلقہ تمام جہتوں کا بخوبی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ایک کثیر جہتی، کثیر سطحی اور کثیرتہی حکمت عملی کی طرف لے جایا جاسکے تاکہ اس خطرے سے مؤثر اور فیصلہ کن طریقے سے نمٹا جاسکے۔ کوئی بھی نیم دل، سطحی یا غیر جہتی نقطہ نظر صرف وقت، وسائل اور توانائی کا ضیاع ہوگا جس سے اس لعنت کو روکنے کیلئے بہت کم یا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
چونکہ یہ مسئلہ بہت گہرا ہے، اس لئے اس کا حل بھی ہمارے معاشرے کی گہرائیوں سے اس کے حتمی خاتمے کیلئے گہرائی سے تلاش کا متقاضی ہے۔ اس سلسلہ وار مضمون سیریز میں اس خرابی کو کنٹرول کرنے والے کچھ متعدد جہتوں اور اس پر مؤثر طریقے سے قابو پانے کیلئے درکار کثیرالجہتی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کرنا مقصودہے۔جہاں اس سلسلے کے پہلے اور دوسرے حصے میں نفسیاتی، سماجی اور مذہبی جہتوں پر بات کی جائے گی۔ تیسرا حصہ طبی و قانونی اور حیاتیاتی جہتوں پر توجہ مرکوز کرے گاجبکہ چوتھا حصہ عالمی سیاسی اور اقتصادی جہتوں پر روشنی ڈالے گا اور آخر میں اس سلسلے کے پانچویں اور آخری حصہ میں اس خطرے کی انتظامی اورانضباطی جہتوں پر بات کی جائے۔ توجہ مسئلہ کے ساتھ ساتھ اس کے حل پر بھی ہوگی۔
سماجی جہتیں
26 جون کو منشیات کے استعمال اور غیر قانونی سمگلنگ کے خلاف اس سال کے عالمی دن کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے منتخب کردہ تھیم ’’لوگ پہلے: بدنامی اور امتیازی سلوک کو روک لیں‘‘ تھی جس میں منشیات کے استعمال کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے منشیات کی غیر قانونی تجارت اور سمگلنگ میں ملوث لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی ظاہر نہ کرنے پر زور دیاگیاتھا۔
اس میں منشیات کے استعمال کے متاثرین کی تنہائی، امتیازی سلوک اور غیر انسانی سلوک کو ختم کرنے اور انہیں علاج، بحالی، ذریعہ معاش پیدا کرنے اور ان کی متعلقہ برادریوں میں دوبارہ انضمام کیلئے انتہائی ضروری مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کیونکہ ان کے بھی اپنے انسانی حقوق ہیں۔اقوام متحدہ کا دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) انسانی حقوق، ہمدردی اور شواہد پر مبنی طریقوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے لوگوں پر مبنی نقطہ نظر اختیار کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔جہاں اشتراک اور دیکھ بھال، باہمی احترام، چاہت اور محبت، ہم آہنگی اور ہمدردی روایتی طور پر انسانی رشتوں کی خاصیت رہی ہے، وہیں سماجی رشتے آج کل ایک قریبی، مربوط اور جڑے ہوئے سماجی تانے بانے سے الگ تھلگ، بکھرائو اور خود مرکوز طرز زندگی کی طرف تیزی سے منتقل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک آلات کے بے تحاشہ استعمال سے باہمی تعلقات مستقل طور پر مغلوب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بار بار بالمشافہ بات چیت، اشتراک، دیکھ بھال اور خوشگوار باہمی محفلوںکی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔بدیر ایسا لگ رہاہے کہ بہت سارے موروثی اور عمیق عوامل کی وجہ سے تعلقات کے درمیان بندھن کی شدت، قربت اور گہرائی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ہماری نوجوان نسل کوحاشئے کی طرف دھکیل رہا ہے اور انہیں سماجی مشغولیت، تفریح اور زندگی گزارنے کے نئے طریقے تلاش کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ نتیجے کے طور پروہ منشیات میں عارضی اور نقلی سکون تلاش کر رہے ہیں اور اس طرح ان کی پوری زندگی اور مستقبل برباد کر رہے ہیں۔ وہ منشیات سمگلروںکا شکار ہو رہے ہیں اور منشیات کے قلیل المدتی احساسِ خوشی کا شکار ہو رہے ہیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ منشیات کے استعمال کے متاثرین کی غلامی کی بیڑیاں توڑنے اوران کو اس خطرناک جال سے آزاد کرنے میں مدد کی جائے۔ ہمیں ایک پیار کرنے والے اور دیکھ بھال کرنے والے خاندان اور کمیونٹی کے معاون فریم ورک کے اندر منشیات متاثرین کو سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور اپنے لئے فیصلہ کرنے کی آزادی دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے بارے میں فیصلہ کن ہونا ان کے درمیان اختلاف اور دشمنی کے بیج بوتا ہے۔ کسی کو نہ تو ان کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور نہ ہی ان سے یہ توقع رکھنی چاہئے کہ وہ راتوں رات اپنے آپ کو بدل لیں گے۔ لوگوں کو ان کی تمام خامیوں، کوتاہیوں،صلاحیتوں اور طاقتوں کے ساتھ قبول کرنا ہی پائیدار تعلقات کی کلید ہے۔
ہمارے بگڑے ہوئے سماجی تانے بانے کے نتیجے میں ہمارے نوجوان زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ اور خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیںاوران کے پاس تفریح اور آرام کے بہت محدود مواقع ہیں۔ہمیں کمیونٹی پر مبنی بزرگوں کے زیرقیادت مداخلتوں کے ذریعے سوشل انجینئرنگ کی طرف واپس لوٹنے کی ضرورت ہے اور اپنے پرانے سماجی عملوں، عقیدوں اور دقیانوسی تصورات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں منشیات کے استعمال کو ایک بیماری کے طور پر علاج کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق مناسب سماجی، طبی، تعلیمی، انتظامی اور ریگولیٹری مداخلتوں کے ذریعے متاثرین کو اس کے اثر و رسوخ پر قابو پانے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔مشترکہ سے علیحدہ خاندانوں کی طرف منتقلی اور سماجی تنہائی کے طریقوں نے کمیونٹی روابط کو توڑدیا ہے۔ معاون خاندان سماجی، ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند اور اچھی طرح سے ایڈجسٹ بچوں کی پرورش اور بعد میں نوعمری کے مسائل کو روکنے کیلئے ضروری ہیں۔
والدین اور بچوں کے تعلقات میں تحفظ، اعتماد اور گرم جوشی کافقدان، خاندانی زندگی میں ڈھانچے کافقدان، نظم و ضبط کے نامناسب طریقے اور ناکافی حد بندی جیسے عوامل بچوں کو الگ تھلگ رہنے، پریشانی والے رویے اور اس کے نتیجے میں منشیات کے استعمال اور ذہنی صحت کی خرابی کے زیادہ خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
لہٰذا خاندانی مہارت کے تربیتی پروگرام ان میں سے بہت سے خطرناک رویوں بشمول منشیات کے استعمال کو روکنے کیلئے کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ منشیات کے خطرے کو دور رکھنے کیلئے اختراعی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
متاثرین کے والدین اور خاص طور پر متاثرہ افراد کے خاندان کے دیگر افراد کا ممکنہ منشیات کے عادی افراد کی شناخت، خاندان کے اندر ایک معاون اور نگہداشت کا ماحول پیدا کرنے، منشیات کے عادی افراد کو منشیات کے استعمال کے برے اثرات کے بارے میںکونسلنگ کرنے اور آگاہی دینے ،انہیںمعمول کی زندگی میں واپس لوٹنے اور منشیات کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ان کی بحالی اور ان کے حوصلے اور اعتماد کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ہوتا ہے تاکہ وہ ایک عام انسان کے طور پر نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور ایک آزاد اور باقار زندگی گزارنے کے قابل ہوں۔
والدین کے علاوہ نوجوان بالغ افراد اپنا زیادہ تر وقت اپنے اساتذہ کے ساتھ گزارتے ہیں، اس طرح وہ منشیات کے استعمال کی لعنت کو روکنے کیلئے اہم سٹیک ہولڈرز میں سے ایک بن جاتے ہیں۔ اساتذہ اپنی کلاسوں میںشامل نوجوان منشیات کے عادی افراد کا پتہ لگانے، شناخت کرنے، مشاورت کرنے، ہاتھ تھامنے، مدد کرنے، حوصلہ افزائی کرنے، بحالی کرنے، علاج کرنے، مرکزی دھارے میںواپس لانے اور ان کا انتظام کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یوٹی بھر کے ہر سکول اور کالج میں آوٹ ڈور کیمپس، اوپن ایئر تھیٹر، ڈرامے، پینٹنگ مقابلے، ویڈیو ڈسپلے، سٹریٹ ڈراموں وغیرہ کے ذریعے باقاعدہ بیداری اور مشاورتی پروگرام منعقد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلباء کو منشیات کے استعمال کے خطرات اور نتائج سے واقف کرایا جا سکے۔ منشیات کے استعمال کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہی کو ہر سطح پر تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔ اساتذہ کو بھی منشیات کے استعمال کی خرابی کی علامات سے اچھی طرح واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ جدید دور کے استاد کو ایک دوست، ایک فلسفی، ایک رہنما، ایک مشیر، ایک سرپرست اور کبھی کبھی ایک ‘نگہداشت کرنے والا’ بھی ہونا چاہئے۔فکر مندی اور نگہداشت کا مطلب وہ مداخلتیںہیںجو طلباء کے بہترین تعلیمی، جذباتی اور نفسیاتی مفادات میں ہوں۔ جیسا کہ ڈیرو (1996) نے کہاتھا “طلباء ان بالغوں کی قدر کرتے ہیں جو ان کی قدر کرتے ہیں”۔اس طرح، وہ طلبا جو بظاہر ناقابل برداشت حالات میں رہ رہے ہیں لیکن ان کے گھر کے ماحول سے باہر ایک ملنسار او فکرمند بالغ ہے جو ان کا خیال رکھتا ہے وہ اس تعلق کو احتیاط سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنے رویے کو ایڈجسٹ کرینگے۔
کمیونٹی کی سطح پر، پولیس، ٹریفک پولیس، میڈیکل ہیلتھ افسران، سکول اور کالج کے اساتذہ، پرنسپل، مذہبی مبلغین، ہاؤسنگ سوسائٹیوں، محلہ کمیٹیوں، ڈرگ کنٹرول اور ایکسائز حکام کی فعال شرکت کے ساتھ بلاک اور ضلعی سطح پر نگرانی اور چوکسی کمیٹیوں کی تشکیل نہ صرف بیداری پیدا کرنے اور منشیات کا استعمال روکنے میںاہم رول ادا کرسکتے ہیں بلکہ یہ ہر علاقے میں مسئلے کی شدت کی نشاندہی کرنے اور منشیات کے عادی افراد کو واپسی، سماج میںدوبارہ انضمام اور بحالی کی طرف ترغیب دینے میںمعاون کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔
منشیات کی لت کو روکنے کے لیے سوشل انجینئرنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ہفتہ وار مذہبی اجتماعات، اجتماعی دعاؤں اور اجتماعات کے دوران مذہبی مبلغین کے ذریعے مسلسل خطبات منشیات کے استعمال کی حوصلہ شکنی میں دیرپا اثر ڈال سکتے ہیں۔
اسلام میں شراب کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی نشہ آور اشیاء کے استعمال کو قرآن پاک کی سورہ المائدہ (5:90-102) میں واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے، جس میں نشہ آور چیزوں کے استعمال کو شیطان کا کام قرار دیا گیا ہے جو انسان کو زندگی میں کامیابی، آزادی اور فلاح سے دور لے جاتا ہے۔لہٰذا تمام مذاہب کے ذریعہ منشیات کے استعمال کی ممانعت کو اس لعنت کو روکنے کیلئے مسلسل پرچار اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔ مذہبی عقائد کا افراد پر گہرا اثر ہوتا ہے اور اس لئے متعلقہ سربراہان کے مذہبی خطبات اس مسئلے پر قابو پانے میں انتہائی موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
محلہ کمیٹیوں کو اپنے اپنے علاقوں میں منشیات کا استعمال کرنے والوں کی شناخت کرنے، ان کی اور ان کے والدین کو کونسلنگ کرنے، متاثرین کو منشیات کے چنگل سے بچانے کیلئے ہر قسم کی مالی، نفسیاتی اور لاجسٹک مدد کی پیشکش کرنے کی ضرورت ہے اور بعد ازاں ان کا علاج، سوسائٹی میںدوبارہ انضمام اور بحالی کیلئے ان کا علاج کرانا چاہئے۔ مقامی سطح پر مسلسل نگرانی، چوکسی اور مداخلت اس لعنت پر قابو پانے میں انتہائی موثر ثابت ہو سکتی ہے۔
(مضمون نگار کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ فارماسیوٹیکل سائنسز میں پڑھاتے ہیں اور یونیورسٹی کے سینٹر فار کیرئیر پلاننگ اور کونسلنگ کے ڈائریکٹر کا اضافی چارج بھی رکھتے ہیں)
(مضمون جاری ہے۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلے ہفتہ شائع کی جائے گی)