یوسف شمسی
ہندوستان کی جمہوری ساخت کا بنیادی ستون ’’شمولیت‘‘ ہے، یعنی ہر طبقہ اور ہر مذہب کو سیاسی دھارے میں مساوی جگہ ملے۔ مگر افسوس کہ یہ اصول وقت کے ساتھ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمان، جو ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے، آج سیاسی منظرنامے میں اپنی حقیقی نمائندگی سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف مسلم قیادت بلکہ جمہوری توازن کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔آزادی کے بعد مسلمانوں کو مرکزی اور ریاستی سیاست میں محدود مگر بامعنی نمائندگی حاصل تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے رہنما قومی سیاست میں سرگرم تھے۔ مگر وقت کے ساتھ کانگریس کی گرفت کمزور ہوئی، علاقائی جماعتیں مضبوط ہوئیں اور مسلمانوں کی سیاسی شمولیت سکڑتی گئی۔ آج پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں کم ہے۔
حالیہ بہار انتخابات میں جنتا دل (یونائیٹڈ) نے صرف پانچ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا، جب کہ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے نسبتاً کچھ زیادہ امیدوار اتارے۔ یہ معمولی سا فرق بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو محض علامتی نمائندگی دینے تک محدود ہو گئی ہیں۔ ووٹ تو لیا جاتا ہے، مگر فیصلہ سازی میں شراکت نہیں دی جاتی۔اس بحران کی ایک بڑی وجہ مسلم قیادت کا فقدان ہے۔ قومی سطح پر کوئی مضبوط آواز نہیں جو مختلف طبقات کو جوڑ سکے۔ دوسری طرف مسلم عوام نے بھی سیاست سے مایوسی اختیار کر لی ہے۔ وہ دوسروں کی قیادت پر انحصار کرتے ہیں، اپنی اجتماعی حکمتِ عملی کے بغیر۔ سیکولر جماعتیں بھی اب مسلم مسائل سے گریز کرتی ہیں تاکہ ’’اقلیت نوازی‘‘ کے الزام سے بچ سکیں۔سیاسی حاشیہ نشینی کے اثرات صرف اقتدار کے ایوانوں تک محدود نہیں، بلکہ پالیسی سازی، تعلیم اور روزگار کے مواقع پر بھی پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کے باوجود مسلمانوں کی حالت میں خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی بیداری کو ازسرِ نو زندہ کریں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے اور قیادت کو ذاتی مفادات سے اوپر اُٹھ کر ایک متحدہ، پالیسی پر مبنی پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا۔ جمہوریت میں اپنی آواز منوانے کا واحد راستہ فعال شمولیت ہے، حاشیہ نشینی نہیں۔
رابطہ۔9162216560