بلا شبہ معاف کرنا ایک ایسی صفت ہے جو دل کو زخموں سے آزاد کر دیتی ہےاور جو لوگ معاف کرنے کافن جانتے ہیں، وہ زندگی کی تلخیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ معافی دینے والے ہمیشہ ہلکے رہتے ہیں، جبکہ دل میں نفرت پالنے والے اپنے ہی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔جو لوگ دوسروں کی کوتاہیوں کو دل پرنہیں لیتےاور اُن کی تلخ باتوں کو درگزر کرکے اپنے دل کو وسیع کر دیتے ہیں ، اُن کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔کیونکہ معاف کرنا صرف دوسروں پر ہی احسان نہیں بلکہ خود پر بھی کرم کرنا ہے۔ معافی کا مطلب ہے کہ اپنے دل کو ناراضگی، غصّے، نفرت اور انتقام کی خواہشات سے آزاد کرنا ہےاور جو شخص ایسا کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ خود کو ایک ایسے قید خانے سے آزاد کر لیتا ہے جہاں تلخ یادوں کے زہر بھرے تیر مسلسل اسے زخمی کر رہے ہوتے ہیں،نیز معاف کرنا روح کی شفا ہے جو ہمیں ماضی کے بوجھ سے آزاد کر کے حال کے لمحے کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔بے شک زندگی بہت مختصر ہے، لمحہ بھر میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ اگلا سانس اُسےکہاں لے جائے گا۔ ایسے میں نفرت پالنے، دشمنیاں نبھانے اور تلخیوں کو سینے سے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو بوجھل نہیں بلکہ خوشیوں سے بھرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معاف کرنا، اپنا زیور بنانا ہوگا، رواداری کو اپنا اصول بنانا ہوگا اور توقعات کو کم کر کے اپنی مسکراہٹ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ جو لوگ محبت بانٹتے ہیں، وہی اصل میں زندہ رہتے ہیں، جو دل دوسروں کی غلطیوں کو بھلا کر آگے بڑھتا ہے، وہی حقیقی سکون پاتا ہے اور جو شخص اپنی توقعات کو کم کر کے زندگی قبول کر لیتا ہے، وہی حقیقی خوشی کا راز پا لیتا ہے۔دراصل زندگی کا اصل حسن اس میں نہیں کہ ہم کتنے لمبے عرصے تک جیتے ہیںبلکہ اس میں ہے کہ ہم کیسے جیتے ہیں۔ اگر زندگی کو نفرت، حسد اور انتقام میں گزارنا ہے تو پھر اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟ ہم یہاں چند لمحوں کے مہمان ہیں اور ان لمحوں کو کس طرح گزارنا ہے، یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ ہر زندگی نشیب و فراز سے گزرتی ہے، ہر دن خوشی اور غم کی ایک نئی کہانی لکھتا ہے۔ لیکن کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ان سے سیکھتے ہیں، گرتے ہیں تو دوبارہ اُٹھنے کا حوصلہ رکھتے ہیںاور آنسوؤں کے درمیان بھی مسکرانے کا فن جانتے ہیں۔دراصل ہماری زندگی کاہر لمحہ انمول ہے،جسے یادگار بنایا جا سکتا ہے،بشرطیکہ ہم اس کی قدر کرنا سیکھ لیں۔کیونکہ جو وقت آج ہمارے پاس ہے، وہ کل نہیں ہوگا اور جو رشتے آج ہمارے ساتھ ہیں، وہ ہمیشہ قائم نہیں رہیں گے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسکراہٹیں تلاش کریں، محبت کے چند الفاظ بولیں اور ایسی یادیں سمیٹیں جو وقت کے ساتھ ماند نہ پڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھی یادیں صرف دولت اور آسائشوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے دادا دادی کے قصے اتنے خوبصورت نہ ہوتے، جن میں نہ تو عالیشان محل تھے، نہ جدید سہولتیں، نہ بڑی بڑی گاڑیاں بلکہ محض مٹی کے سادہ گھر تھے، تنگ گلیاں تھیں اور محبت کے دریا بہتے تھے۔ وہ سائیکلوں پر سفر کرتے، کھلی فضاؤں میں کھیلتے، سادہ خوراک کھاتے اور پھر بھی سکون میں رہتے۔ وہ کماتے بھی تھے محبت بٹورنے کے لیے، نفرت خریدنے کے لیے نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگیوں میں وہ خوشیاں تھیں جو آج ہماری پرتعیش زندگیوں میں بھی ناپید ہیں۔بدقسمتی سے آج ہم نے محبت کو چھوڑ کر پیسے کو اپنا سب کچھ بنا لیا ہے۔ رشتے ناپید ہو چکے ہیں، تعلقات صرف ضرورتوں تک محدود ہو چکے ہیں اور ہم نفرتوں کا ایسا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں جو ہماری روح کو بوجھل کر رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا اور اپنی زندگی کو محبت سے خالی رکھا، اپنی یادوں کو نفرت کے سائے میں دفن کر دیا تو آنے والی نسلوں کو ہم کیا دے کر جائیں گے؟ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی زندگی کو خوبصورت بنائیں، نفرتوں کے بوجھ سے آزاد ہوجائیں اور محبت کے بیج بو کر ایک ایسا مستقبل تراش کریںجس سے ہمارے بچے بھی خوشیوں کی روشنی میں پروان چڑھیں،خوشی کےچراغ جلیں اور ہماری موجودگی دوسروں کے لیے امن وسکون کا باعث بنیں۔