سراج نعمانی
مسلمانوں کا بے لوث خدمت گار، سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل سے رہائی دلانے والا، خاموشی کے ساتھ قومِ مسلم کا سچا خدمات گار، حکومتِ وقت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر گفتگو کرنے والا، جمعیت کا کمانڈر جنہیں ہم گلزار اعظمی کے نام سے جانتے ہیں۔
وہ 1954 میں جمعیت علماء سے وابستہ ہوئے تھے اور اپنی پوری زندگی جمعیت کا وفادار سپاہی بن کر قوم کی خدمت کرتے رہے۔ مسلمانوں کے دوسرے گروہوں میں بھی انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ وہ ایک بلند، باہمت اور باکردار لوگوں میں شمار کی? جاتے تھے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے۔
مالیگاؤں، دھولیہ، اورنگ آباد، جالنہ، پربھنی، جنتور، اکولہ، امراوتی اور ناگپور تمام علاقوں سے گذشتہ 20 اگست کو جمعیت علماء کی ایک میٹنگ بلائی تھی اور اپنے تمام کام کرنے والے ساتھیوں کی موجودگی میں 20 اگست 2023 بروز اتوار 10 بجکر 35 منٹ صبح دنیائے فانی سے عالمِ ارواح کی طرف پرواز کرگئے۔ یہ خبرنشر ہوئی تو پورے ملک کے مظلوموں میں صفحے ماتم بچھ گئی، دانشوروں میں یہ چہ مگوئیاں ہونے لگی کہ دوسرا گلزار اعظمی ملنا مشکل ہے۔ یہ خبر ہر طرف جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی، خاص و عام لوگ غم میں ڈوب گئے۔
رات 9 بجکر 30 منٹ پر سید معصوم شاکر صاحب نے جنازے کی نماز پڑھائی اور انکے آبائی قبرستان جو انکے گھر کے قریب ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مدفون کئے گئے۔
موصوف نے سینکڑوں مسلم مظلوموں پر لگنے والے بم بلاسٹ جیسے جھوٹے الزامات جہاں اپنے، پرائے، رشتہ دار، خاندان اور والدین تک ساتھ چھوڑ دیتے ہیں وہیں گلزار اعظمی اپنی وکلاء کی ٹیم کے ساتھ ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک ڈٹ کر مقابلہ کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ، ’’ پہلے الزام تو ثابت کرو‘‘۔ پھانسی کے پھندے سے نا جانے کتنے نوجوانوں کی جان بچائی۔ حکومت کی آنکھوں میں وہ کانٹے کی طرح چبھا کرتے تھے، وہ شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنے ارادے میں مستحکم تھے۔ آج جب وہ نہیں رہے دور دور تک انکا نعم البدل دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔ میں کاتب تقدیر سے دعاگو ہوں کہ قوم مسلم کو گلزار اعظمی جیسا رہبر عطا فرمائے۔ انکے تمام لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و عرفہ مقام عنایت کرے۔
علامہ اقبال نے یہ شعر ایسے ہی لوگوں کے لیے لکھا تھا کہ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
فون نمبر۔ 7450935090
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)