سیدمصطفی احمد
مسائل ہمارے سماج میں پہلے سے تھے۔ سماج تو متضاد چیزوں کا مجموعہ ہی ہے۔ رات سے دن ،تو دن سے رات کی پہچان ہوتی ہے۔ اس طرح یہ زندگی یا سنسار چلتا رہتا ہے۔ اس کو بنانے والے نے ایک نازک انداز سے بنایا ہے جو بہتوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب سے خاص کر یہ دنیا بنائی گئی، اب یہ Bang Big سے بنی یا پھر کسی اور Nebula سے، یہاں مسائل کی کوئی کمی نہیں رہی ہیں۔ قتل، چوری، حسد، ناجائز قبضہ، کالا جادو،جاسوسی، وغیرہ پہلے دن سے یہاں ہیں۔ مجھے لگتا ہے اس سے ہی اس دنیا کی زینت ہے۔ میں غلط بھی ہوسکتا ہوں مگر پھر بھی ان چیزوں سے ہی اس دنیا کا حسن نکھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کے برعکس مندرجہ بالا مسائل کے علاوہ اب اتنے سارے مسائل ہیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے کہ کیا لکھیں اورکیا چھوڑیں۔ اس کو لکھیںجو زندگی کے بنیادی ضروریات کیلئے ضروری ہیں یا پھر ایسا موضوع زیر بحث لایا جائے جو ثانوی درجہ رکھتا ہو۔ یہ خود ایک تضاد ہے۔ اس الجھن میں کئی اعلیٰ قلمکار پھنسے ہوئے ہیں، مجھ ناچیز کی کوئی بنیاد بھی نہیں ہے۔ البتہ کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ میں اس مضمون میں ان وجوہات کی بات کرنے جارہا ہوں جن سے مسائل کی بھرمار ہوگئی ہیں۔ ہر طرف مسائل منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ ایسے کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایسا ممکن ہوگیاہے کہ اب مسائل سے ہمارا گہرا رشتہ جڑ گیا ہے۔
پہلا ہے خیالات کا تضاد۔ ہر قسم کا تنوع ضروری ہے۔ اس سے جینے میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ البتہ اپنے خیالات جبراً ٹھوس دینا زیادتی ہے اور مسائل کو جنم دینے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ ایک ملک اپنے خیالات کو دوسروں پر ایسے مسلط کرتا ہے جیسے کہ اس خیال سے بڑھ کر دنیا میں اور خیال ہی نہیں ہے۔ اس سے اور ممالک کے لئے راستہ بن جاتا ہے اور وہ بھی اس ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ سرد جنگ اس کی واضح مثال ہے۔ یہی سوچ آج بھی ہر جگہ کارفرما ہے۔ جنتی بھی جنگیں دنیا میں ہورہی ہیں، وہ سرد جنگ کا نتیجہ ہیں اور یہ جنگ خیالات کے تضاد کا مکروہ پھل ہے۔
دوسرا ہے مادیت۔ دنیا آزمائش ہے۔ یہاں ہر چیز فانی ہے۔ دنیا کی ہر چیز میں سبق چھپا ہے۔ ان کو اتنا ہی پانا ہے جتنا ہماری صحت کے لئے ٹھیک ہے۔ اتنا ہی کھانا ضروری ہے، جتنا ہم کھا سکیں۔ اس سے زیادہ کی ہوس مسائل کے دلدل میں پھینک دے گی۔ Tolstoy Leo اپنے ایک افسانے ’’How much land does a man need‘‘میں لکھتا ہے کہ دنیا کو اپنا مان کر بھی، آخر انسان کو صرف چھ فٹ زمین چاہیے۔ دنیا کی زمین کے کاغذات بھی اگر میرے پاس ہوں،آخر مجھے صرف کچھ فٹ میں سما جانا ہے۔ مگر انسان یہ سبق بھول جاتا ہے۔ اپنی حیوانوں جبلیات کی تسکین وہ مال میں پاتا ہے۔ دوسروں سے الگ دکھنا اور ہر جگہ تعریفوں کی کھوج میں رہنا اس کو لالچ کا پجاری بنا دیتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور آخر کار تباہی پر ختم ہوتا ہے۔ دولت حاصل کرنے میں کوئی بھی قباحت نہیں ہے۔ البتہ زندگی صرف مادیت کے حوالے کر دینا عقل سے بعید ہے۔ انسان گند ہے۔ اس کے جسم سے نکلنے والا فضلہ اتنا بدبودار ہے کہ آنتے باہر آئیں۔ بدن سے نکلنے والا پسینہ بدبودار ہے۔ منہ سے نکلنے والے الفاظ روح کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ پھر بھی اتنی ہوس۔ باہری روغن سے اندر کی گند صاف نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لئے کم کھانا، کم سونا، کم بولنا مگر ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ پیسے بے جان ہیں۔ ان میں احساس کی کمی ہے۔ ہم تو حساس ہیں۔ کیوں نہ اتنا ہی کمایا جایا جس سے یہاں کا سفر آسان ہو۔
تیسرا ہے دکھاوا۔ اس بیماری نے ہمارے سماج کو ہی کھولا کر دیا ہے۔ اس دیکھا دیکھی کے ماحول نے کتنوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ دوسروں پر اپنی چھاپ بڑھانے کی خاطر ایک انسان اپنا گلا کاٹ دیتا دیتا ہے تاکہ دوسروں کے کھیتوں کو سینچ سکے۔ اس سے مسائل کے ان گنت دروازے کھل جاتے ہیں اور پھر بند ہونے کے نام نہیں لیتے ہیں۔ دوسروں پر تو رعب جمتا نہیں ہے مگر اتنا ضرور ہے جمانے والا ہی ہمیشہ کے لئے دب جاتا ہے۔
چوتھا ہے ہماری اپنی نااہلی۔ ہم نے خود مسائل کو جنم دیا ہیں اور پھر سینا بھی خود پیٹتے ہیں۔ ہم نے کبھی عقل اور دل سے کام لیا ہی نہیں۔ ہم نے صرف جذبات کی رو میں بہہ کر وہ فیصلے لیں جن کی کوئی بھی بنیاد نہیں تھی مگر ان فیصلوں نے ہماری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس انسان کو کون سمجھائے جو محنت کر کے سوت پانی میں پھینکے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مسائل ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ان کو ابھی لکھنا مضمون کو طویل بنادے گا۔
مسائل کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ہوشیاری سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جو انسان جاگ گیا، پھر دنیا اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اس انسان کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا،ہے جو جذبات اور دیوانگی کو اپنا شیوہ بناتا ہے۔ جب مسائل انسان کی پیداوار ہیں، تو حل بھی ہم میں ہی پنہاں ہے۔ یہ کوئی process metaphysical یا مافوق الفطرت عمل نہیں ہے۔ اسی زمین پر یہی ان کا حل ڈھونڈنا ہے۔ ہر کسی کو جاگنا ہوگا۔ رہے مسائل وہ تو ہمارے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔ ان سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ بس اتنا ضرور ہے کہ ہم شدت اور اثرات کو بہت حد تک کم کریں۔ بے گناہوں کو بلی کا بکرا بننے سے بچا سکتے ہیں۔ کسی کی جائیداد تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ کسی کی عزت کو پامال ہونے سے بھی بچا سکتے ہیں۔ یہ آہنی چنے چبانے کے مترادف نہیں ہے۔ بس ضمیر زندہ ہونا چاہئے۔ اگر نہیں، تو اس گھر کو آگ لگی اپنے ہی چراغ سے والا معاملہ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ آپسی معاملات کو سدھارنے کی ضرورت بڑھ گئی ہیں۔ تو نے غیروں سے کہا، تو نے غیروں سے پوچھا، کبھی ہم سے بھی کہا ہوتا، کبھی ہم سے بھی پوچھا ہوتا کے مصداق مسائل کو آگ دینے سے پہلے ایک بار ہم ایک دوسرے سے پوچھ بھی لیں کیا ہم سب فرشتوں والی صفات رکھتے ہیں!
پتہ ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی، سرینگر کشمیر
ای میل۔[email protected]