ٓاختر جمال عثمانی
محشرؔ بارہ بنکوی گزشتہ چند برسوں سے صاحبِ فراش تھے۔ فالج کے عارضے نے بحیثیت قانون داں کے ان کی سرگرمیوںکافی حد تک محدود کر دیا تھا ۔ 29 جولائی 2023 رات دو بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی عمر تقریباََ بیاسی برس تھی۔ ان کا انتقال کی خبر نہ صرف اہل بارہ بنکی کے لئے صدمے کی بات ہے بلکہ اردو ادب کے لئے ایک بہت بڑا خسارہ ہے۔وہ ایک معروف قانون داں، سیاست داں، مبصر، کالم نگار کے علاوہ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے شہر کے بڑے اور نامور وکیلوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ استاذالشعریٰ عزیزؔ بارہ بنکوی کے اہم ترین شاگردوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ محشر بارہ بنکوی کی پیدائش 01 جولائی 1941 میں بارہ بنکی کے قصبہ بڑیل میں ہو ئی ۔ سید مبین احمد محشر بارہ بنکوی کو شعر ادب سے دلچسپی وراثت میں ملی تھی ان کے والد سید محفوظ حسین رضوی اپنے زمانے کے مستند شاعر تھے اور آر زوؔ لکھنوی کے شاگرد تھے۔ رضوی صاحب کو اپنے حافظے پر اعتماد تھا بیاض نہ رکھتے تھے لہٰذہ ان کا کلام دستیاب نہیں ہے۔ خاندان کے دیگر افراد بھی شعر گوئی کا شوق رکھتے تھے ۔محشر صاحب کو بچپن سے ہی شعر سننے اور اور شعر پڑھنے کا شوق رہا چنانچہ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ اور نبلٹ کالج بارہ بنکی کے سالانہ مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ شاعری میں وہ اپنے معیار اور مزاج کو مقدم رکھتے تھے۔ادب کا معیار جس پستی کی طرف گامزن تھا اس سے خود کو بچائے رکھنے کی کوشش میں لگے رہے۔1970 تک مشاعروں میں شرکت جاری رہی ان کو اس دور کے تمام نامور شعراء کی موجودگی میں کلام پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔جن میں خمارؔ بارہ بنکوی نور ؔلکھنوی، شمیم ؔجے پوری،مجروح ؔ سلطان پوری ، وسیم ؔبریلوی، حبیب ؔحاشمی اور تمناؔ جمالی کے نام خاص طور پرلئے جا سکتے ہیں۔ اس دوران وکالت میں ان کی مصروفیات کافی بڑھ چکی تھیں اور ان کا شمارشہر کے معروف اور مقبول وکلاء میں ہونے لگا تھا۔ چنانچہ دور دراز کے مشاعروں میں شرکت ممکن نہ رہی تھی۔ اس لئے وہ عوامی مشاعروں سے دھیرے دھیرے کنارہ کش ہوتے گئے۔ پیشے کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ مشاعروں کا ماحول ،شرکت کے لئے گٹ بندی اور شاعری کے گرتے معیار نے بھی مشاعروں سے دووری بنانے پر مجبور کیا۔ شاعری نہ تو ان کا پیشہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنی پہچان کا وسیلہ تصور کرتے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق شاعری ادبی رسالوں اور نشستوںکی وجہ سے اپنا معیار برقرار رکھے ہوئے ہے ورنہ مشاعرے تو تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ چنانچہ مشاعروں میں شرکت برائے نام رہنے کے باوجود نشستوں میں ان کی شرکت برابر جاری رہی۔کسی نشست میں ان کی شرکت ہی نشست کے معیار کا تعین کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ادبی رسالوں میں بھی کلام شایع ہوتا رہا۔ ان کی شاعری میں غزل کی لطافت تو تھی ہی عہد حاضر کے مسائل کو بھی جگہ ملتی تھی۔ان کو انگریزی اور اردو نثر پر بھی عبور حاصل تھا۔سیاسی حالات کو لیکر ان کے مضامین قومی آواز اور دیگر اخباروں کی زینت بنتے تھے ۔جو موضوعات اپنی وسعت کے اعتبار سے شعر کے قالب مین نہ ڈھل پاتے وہ ان کے مضامین اور تبصروں میں اظہار پاتے۔ اگر چہ ان کا شاعری میں میدان کلاسیکل غزل تھا۔ جس میں حسن و عشق کا بیان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ان کی غزلون میں معاشرے کے مسائل ، اہل سیاست کی خود غرضی ، قدروں کی پامالی عدلیہ کی جانب داری اور زرپرستی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ در اصل ان کی خود داری نے ان کو مشاعروں سے برگشتہ کیا تھا۔اسی خود داری نے ان کو وکالت کے پیشے سے بھی مطمئن نہ رہنے دیا۔ وہ خود رقم طراز ہیں ’’ باوقار اور معزز پیشہ سمجھ کر وکالت شروع کی ۔مگر موجودہ حالات میں مجھے زندگی کی یہی سب سے بڑی غلطی معلوم ہوتی ہے۔اس لئے کہ اب اس میں کردار ،وقار، عظمت کچھ بھی نہیں بچا ہے جو اس پیشے کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کی شاعری کے متعلق حضرتِ خمار ؔبارہ بنکوی نے تحریر فرمایا ہے۔
’’ محشرؔ بارہ بنکوی اپنے والد بزرگوار کی طرح وضعدار اور پرانی قدروں کے پرستار ہیں۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے ہیں مگر مشاعروں میں میرے شریک ہو تے ہیں اور بہت اچھا شعر کہتے ہیں۔ میں نے انھیں خوب سنا ہے اور ان کے کلام کو پسند کرتا ہوں ان کی وضعداری ، شرافت اور نیک نفسی ان کے کلام میں ڈھل گئی ہے‘‘
محشر بارہ بنکوی ایک کہنہ مشق شاعر تھے ۔ اچھے شعر کہتے تھے ترنم بھی دلکش تھا وہ کلاسیکی غزل کے قریب تھے لیکن نئے مضامین بھی پرانی علامتوں کی مدد سے خوب کہتے تھے۔ ان کا شعر سننے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا تھا۔ شہرت کی اس بلندی تک جس کے وہ مستحق تھے نہ پہونچ پانے کی سب سے بڑی وجہ رہی ان کی خود داری ہی جو ان کے مزاج کا حصہ تھی ۔ وہ ادبی جوڑ توڑ کے کبھی قائل نہیں رہے۔جہاں تک ان کی ادبی خدمات کا سوال ہے۔ انہوں نے ایک زمانے تک اپنی غزلیات یکجا کرنے یا انھیں کتابی صورت دینے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اس دور میں بارہ بنکی میں ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہی بزم اہل فن کے صدر ایم اے انصاری ــ ’’مشو‘‘ کے اصرار پر اور ان کے قریبی دوستوں جناب غیاث الدین قدوائی صاحب ، امیر حیدر صاب اور رضوان الرحمٰن قدوائی صاحب وغیرہ کی ایما پر ان کا شعری مجموعہ ’’ متاعِ فکر‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ جس کی کافی پزیرائی ہوئی۔ محشر بارہ بنکوی کا جانا اردو ادب کے شیدائیوں کا اور ہم اہلِ بارہ بنکی کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ بحیثیت ایک خود دار شاعر اور ایک قابل قانون داں ان کو ج مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
اک کمی بزم کی ہر شے میں نظر آتی ہے
صرف محشرؔ ہی اگرچہ تری محفل میں نہیں
پتہ۔دیوہ روڈ، رفیع نگر، بارہ بنکی یو پی،انڈیا۔225001
موبائیل۔ 9450191754
ای میل۔[email protected]