یو این آئی
نئی دہلی//دہلی میں ہونے والے دھماکے کے سلسلے میں، جو مبینہ طور پر جیشِ محمد سے منسلک بتایا جا رہا ہے ، اب تک 15 افراد کو گرفتار اور تین کو حراست میں لیا گیا ہے ۔یہ گرفتاریاں جموں و کشمیر پولیس نے کی ہیں اور اب تک کل 56 ڈاکٹروں سے پوچھ گچھ ہو چکی ہے۔ اس ماڈیول پر پیر کی شام 6 بج کر 52 منٹ پر لال قلعے میں ہونے والے دھماکے کا الزام ہے ۔یہ پورا معاملہ سرینگر کے نوگام پولیس سٹیشن علاقے سے شروع ہوا، جہاں سیکورٹی فورسز نے دھمکیاں دینے والا ایک اشتعال انگیز پوسٹر پایا ۔تحقیقات کے ابتدائی مرحلے میں 20 سے 27 اکتوبر کے دوران مولوی عرفان احمد وگے (شوپیان) اورضمیر احمد (واکورہ، گاندربل) کو گرفتار کیا گیا۔اس کے بعد 5 نومبر کو سہارنپور سے ڈاکٹر عادل گرفتار ہوا،جس کے نتیجے میں 7 نومبر کو اننت ناگ ہسپتال سے ایک AK-47 رائفل برآمد ہوئی۔ 8 نومبر کو فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی سے مزید رائفلیں، پستولیں ضبط کی گئیں۔
بعد ازاں ڈاکٹر مزمل گرفتار ہوئے اور اسلحہ و گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ برآمد کیا گیا۔9 نومبر کو فرید آباد کے دھوج علاقے کے رہائشی مدراسی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا۔10 نومبر کو فرید آباد کے ڈھیرا کالونی میں واقع الفلاح مسجد کے امام حافظ محمد اشتیاق کے مکان سے 2,563 کلوگرام دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔اس کے علاوہ دیگر چھاپوں میں 358 کلوگرام مزید دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹر اور ٹائمر ضبط کیے گئے ،یوں کل برآمد شدہ مواد کی مقدار تقریباً 3,000 کلوگرام تک پہنچ گئی۔پولیس کے مطابق، ان کارروائیوں کے دوران الفلاح یونیورسٹی کا ملازم اور ماڈیول کا رکن ڈاکٹر عمر محمد زیرِ زمین چلا گیا۔10 نومبر کی شام قومی دارالحکومت لال قلعے کے قریب خوفناک دھماکہ ہوا۔جائے حادثہ سے کٹا ہوا ہاتھ برآمد ہوا ہے ، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عمر محمد کا ہے ،جن پر خودکش حملہ آور ہونے کا الزام ہے ۔اس کی تصدیق کے لیے ان کی والدہ کے ڈی این اے نمونے کی جانچ کی جا رہی ہے ۔عمر کے پڑوسی اور ساتھی ڈاکٹر مزمل شکیل کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔پولیس کے مطابق، سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عمر محمد گاڑی چلا رہا تھا، اور دھماکے میں استعمال شدہ مواد فرید آباد میں برآمد شدہ دھماکہ خیز مواد سے مطابقت رکھتا ہے ۔افسران ابھی یہ جانچ کر رہے ہیں کہ یہ دھماکہ پہلے سے منصوبہ بند تھا یا عمر محمد کے گھبرا جانے کی وجہ سے اچانک پیش آیا۔مزید تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا کہ دہلی لانے سے پہلے وہ گاڑی29 اکتوبر سے 10 نومبر تک فرید آباد کے دھوج میں الفلاح میڈیکل کالج میں کھڑی تھی۔11 نومبر کو کیس کو باضابطہ طور پر نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے حوالے کر دیا گیاتاکہ ماڈیول کی فنڈنگ اور اس کے وسیع نیٹ ورک کی گہرائی سے جانچ کی جا سکے ۔