دھرمیندر پردھان
علم طاقت ہے۔ بھارت کی مالا مال علمی صلاحیت ویدوں اور اپنشدوں کی شکل میں ظاہر ہے جو صدیوں سے علم و دانش کے وسیع تر سمندر سے عیاں ہے ۔ہماری بھارتی یونیورسٹیوں یعنی نالندہ اور تکشلا کے ساتھ بھارت ماضی میں بین الاقوامی علمی مرکز رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بھارت کی علمی قوت اور دولت نے مغلوں، منگولوں، برطانوی افراد، ڈچوں اور پرتگالیوں سمیت متعدد لوگوں کو متوجہ کیا جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں بھارت پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بھارت کے علمی خزانوں کو کافی نقصان پہنچا، تاہم یہ بات بھی ازحد مشہور ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے کہ جہاں ایک جانب حملہ آوروں نے ہماری سر زمین کو لوٹا او رہماری یونیورسٹیوں کو تباہ کیا، وہیں وہ ہماری سرزمین کے گوروئوں اور یوگیوں کے سامنے شکست خوردہ ہی ثابت ہوئے۔
جہاں ایک جانب برطانیہ نے دوسرے صنعتی انقلاب کے دوران دنیا کی قیادت کی، وہیں امریکہ نے تیسرے انقلاب کی قیادت کی۔ آج بھارت برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں وسیع تر معیشت بن گیا ہے۔ یہ بہت مناسب وقت ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر علم کے مخزن اور مخرج کی جگہ حاصل کریں اور پوری دنیا کو نئی اور ابھرتی ہوئی تکنالوجیوں کے معاملے میں غیر معمولی نمو کی حامل چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب گامزن کریں۔
ان متوقع تبدیلیوں کے درمیان 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے تعلیمی نظام کو تغیر سے ہمکنار کرنے کی تصوریت پیش کی اور اسے 21ویں صدی کا عالمی علمی پاورہائوس بنانے کی بات کہی۔ 260 ملین سے زائد سکول جانے والے بچوں اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں حصول علم میں مصروف 40 ملین سے زائد طلبا کے ساتھ بھارت کا تعلیمی نظام عالمی پیمانے پر ایک وسیع تر نظام ہے۔ حکومت سمیت تمام تر شراکت داروں کے ساتھ وسیع تر تبادلہ خیالات کے بعد 34 برسوں کے فاصلے کے بعد قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی)2020 کا آغاز کیا گیا۔ ہم 29جولائی 2023 کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس موقع پر ہم دو روزہ اکھل بھارتیہ شکشا سماگم – تعلیم کے محاذ پر ایک مہاکمبھ، کے اہتمام کے ساتھ این ای پی کی تیسری سالگرہ منائیں گے۔
این ای پی کے گذشتہ تین برس اہم حصولیابیوں کے برس رہے ہیں۔ بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ اوائل اطفال نگہداشت اور تعلیم (ای سی سی ای) کو رسمی سکولی نظام کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ایک بچے کی 80 فیصد سے زائد مجموعی ذہنی نشو و نما 8 برس سے قبل وقوع پذیر ہوتی ہے۔اس کے علاوہ اولین قومی تعلیمی نصاب سے متعلق فریم ورک برائے اساسی مرحلہ (این سی ایف۔ ایف ایس) وضع کیے جانے پر زور دیا جا رہا ہے جو کھیل پر مبنی تعلیمی سائنس ہے اور یہ نصاب 3 سے 8 برس کے بچوں کی ضروریات کی تکمیل کرے گا۔ اس فریم ورک کے تحت مختلف النوع سرگرمیاں مثلاً گفت و شنید، کہانیاں، موسیقی، فنون، صناعی، کھیل کود، فطرت کے مناظر کی سیر کرانے والے سفر، مختلف سازو سامان اور کھلونوں کے ساتھ باہم اثر پذیر کھیل پر مشتمل مختلف النوع سرگرمیاں شامل کی گئی ہیں۔ اس طریقہ کار کی ایک مثال کے طور پر ایک جادوئی پٹارہ (طلسمی بکس) سکولوں کے لیے فراہم کیا گیا تاکہ وہ اسے اختیار کر سکیں۔
درجہ ایک اور درجہ دوم کیلئے نصابی کتب جو این ایس ایف۔ ایف ایس پر مبنی ہیں، انہیں جاری کیا جا چکا ہے۔ یہ قومی نِپْن بھارت مشن کی ضروریات کی تکمیل کریں گی تاکہ 2026 تک بنیادی خواندگی اور حساب کتاب کی اہلیت حاصل کی جا سکے۔ تقریباً 150 نئی نصابی کتب دستیاب کرائی جائیں گی۔ انہیں سکولی تعلیم کیلئے وضع کردہ عنقریب متعارف کیے جانے والے قومی نصابی فریم ورک (این سی ایف۔ ایس ای) کے ساتھ مربوط کیا جائے گا۔ یہ کتابیں امرت کال کی کتابیں ہوں گی اور انہیں کم از کم 22بھارتی زبانوں میں تیار کیا جائے گا۔ اس سے این ای پی 2020 کے تحت کثیر لسانی تعلیم کی تصوریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ ان نصابی کتب کی ڈیجیٹل شکلیں پی ایم ای۔ودیہ کے توسط سے قابل رسائی بنائی جا رہی ہیں، اس امر کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ مساویانہ اور طلب کے مطابق رسائی حاصل ہو سکے۔ رائزنگ انڈیا کیلئے پی ایم شری سکول جو صحیح معنی میں این ای پی کے جذبے کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں بھی ملک بھر میں قائم کیا جا رہا ہے۔
این ای پی 2020 نے عام تعلیم کے ساتھ اپنے ارتباط اور اہم تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیشہ وارانہ تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ ہم سمگر شکشا اور سکل انڈیا مشن کے مابین ربط پیدا کر رہے ہیں تاکہ سکول کی سطح پر ہنرمندی متعارف کرائی جا سکے۔ 5000 کے بقدر ہنرمندی مراکز سکولوں میں قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ جامع ہنرمندی اور پیشہ وارانہ تربیت پروگرام طلبا اور تعلیم ترک کرنے والوں کو فراہم کیے جا سکیں۔
مزید برآں ایک منفرد قومی کریڈٹ فریم ورک (این سی آر ایف) متعارف کرایا گیا ہے جو رسمی اور غیر رسمی درس و تدریس کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ سکولی، اعلیٰ اور ہنرمندی پر مشتمل تعلیم اور تربیت پر احاطہ کرتی ہے۔ این سی آر ایف کثیر پہلوئی داخلہ اور انخلاء کو مختلف سطحوں پر ممکن بناتا ہے۔ اس کے ذریعہ طلبا اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے شعبے میں ازسر نو داخل ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں طالب علم کے تعلیمی بینک آف کریڈٹ (اے بی سی) میں باقاعدہ اعتراف کیلئے اندراجات جمع کیے جا تے ہیں۔
تکنالوجی طلبا کو آن لائن ڈگری پروگرام اپنانے کے لائق بنا رہی ہے، سیکھنے والوں کو افزوں لچک فراہم کر رہی ہے اور معیاری اور عمدگی کی حامل تعلیم تک رسائی میں اضافہ کر رہی ہے، خصوصاً دور دراز علاقوںمیں سہولت کار ثابت ہو رہی ہے۔ اب کریڈٹ آن لائن کورسوں کے توسط سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ، سوئم پورٹل اور جلد ہی ایک ڈیجیٹل یونیورسٹی جو اپنی نوعیت کی اولین یونیورسٹی ہوگی، وہ بھی بھارت میں قائم کی جائے گی۔ ہنرمندی کیلئے ڈیجیٹل ایکو نظام کو متحدہ سکل انڈیا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعہ مزید مستحکم بنایا گیا ہے تاکہ طلب کے لحاظ سے ہنرمندی کے تقاضے کی تکمیل ممکن ہو سکے۔ اسے ایم ایس ایم ای سمیت آجروں کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے اور اس کے تحت صنعت کاری سکیموں تک رسائی کا راستہ بھی فراہم کرایا جاتا ہے۔ ہم ہنرمند امیدواران کی عالمی موبلٹی کو سہل بنانے کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ 30 کے بقدر انڈیا انٹرنیشنل سکل سینٹرس قائم کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد نوجوانوں کو بین الاقوامی معیارات کی حامل ہنرمندی تربیت فراہم کرنا ہے اور ان کیلئے یعنی ہنرمند افرادی قوت کیلئے سمندر پار کے مواقع میں اضافہ کرنا ہے۔ 330 سے زائد نئے عہد کے کورس وضع کیے گئے ہیں تاکہ صنعت 4.0 کی ضروریات کی تکمیل ہو سکے۔
سیکھنے کے معاملے میں لسانی رکائوٹوں پر قابو حاصل کرنے کیلئے اعلیٰ تعلیمی ادارے اب متعدد بھارتی زبانوںمیں تکنیکی پروگرام فراہم کر رہے ہیں۔ مصنوعی انٹیلی جنس ترجمہ ٹول نصابی کتب کا ترجمہ مختلف بھارتی زبانوںمیں پیش کر رہے ہیں۔ اہم داخلہ امتحانات مثلاً جے ای ای، این ای ای ٹی اور سی یو ای ٹی اب 13 زبانوںمیں دستیاب ہیں۔
تعلیم کو آفاقی شکل دینے کے عہد میں بھارتی ادارے ملک سے باہر بھی اپنے کیمپس قائم کر رہے ہیں ، جہاں ایک جانب آئی آئی ٹی مدراس زنجیبار۔ تنزانیہ میں اپنے زیر منصوبہ کیمپس کے ساتھ عالمی حیثیت اختیار کرنے جا رہا ہے، وہیں یو اے ای میں آئی آئی ٹی دہلی کے قیام کے لیے ایک مفاہمتی عرضداشت پر بذاتِ خود وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں اس مہینے کے اوائل میں دستخط عمل میں آئے تھے۔ قابل ذکر غیرملکی یونیورسٹیاں گجرات کے گفٹ سٹی میں اپنے کیمپس قائم کر رہی ہیں اور مستقبل قریب میں سمندر پار سمیت ایک سکول بورڈ کے قیام کے ساتھ دیگر بھارتی اداروں کی موجودگی کو مزید وسعت دینے کے وقاری منصوبے بھی موجود ہیں۔
امرت کال کے تحت وکست بھارت کا خواب صرف اس صورت میں شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب امرت پیڑھی کی امنگوں اور توقعات کی تکمیل ہو سکے۔ ہماری تقریباً 65 فیصد کے بقدر آبادی کام کاج کرنے کی عمر کے گروپ میں ہے۔ ہمیں ایک ایسے عہد کے لیے فریم ورک وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں تاحیات سیکھنے اور ہنرمند بننے کے امکانات موجود ہوں اور یہی آج کا تقاضہ بھی ہے۔
واسودھیو کٹمب کم کے نظریے سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے بھارت حقیقی معنوں میں 21ویں صدی کا قائد بن جانے کے راستے پر گامزن ہے اور این ای پی اس تغیر کو موجودہ حقیقت سے مربوط کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ بھارت کے علمی نظام میں کارفرما بنیادی خصوصیات پر زور دیتے ہوئے، جس کا نظریہ عالمی شہریوں کی تخلیق ہے، اس میں دنیا میں کہیں بھی مبنی بر علم معاشرے کی تشکیل کے رہنما فلسفے کے مضمرات پنہاں ہیں، خصوصاً نادار اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کیلئے جو نوآبادیاتی نظام کی پرچھائیں اور اثرات سے آزاد ہونے کیلئے کوشاں ہیں۔ اب جب این ای پی اپنے چوتھے برس میں داخل ہو رہی ہے، اس کی کامیابی کا مطلب ہوگا 2047 تک ایک وکست بھارت (ترقی یافتہ بھارت) اور علم اور امن کو ساجھا کرنے پر مرتکز ایک عالمی نظام ہے جو حقیقت بن جائے گا۔
(مضمون نگار ، تعلیم اور ہنرمندی ترقیات اور صنعت کاری کے مرکزی وزیرہیں۔)