سرینگر// صوبائی حکومت کی جانب سے گوشت کی قیمت طے کرنے کے بعد قصابوں اور انتظامیہ کے درمیان مخمصہ جاری رہنے کے بیچ بدھ کو سرینگر میں قصابوں اور کوٹھداروں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ انہیں سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور نہ کیا جائے۔ صوبائی حکام کی جانب سے ایک ماہ قبل وادی میں گوشت کی پرچون فی کلو کی قیمت480جبکہ تھوک قیمت450روپے مقرر کی گئی،جس کے بعد ہی مٹن ڈیلروں اور حکام کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا۔ بدھ کو سرینگر میں سرکار کی جانب طے کی گئی قیمتوں کے خلاف قصابوں اور ہول سیل مٹن ڈیلروں نے احتجاج کرتے ہوئے نعرہ بازی کی۔ مظاہرین نے بینر اور پلے کارڑ بھی اٹھا رکھے تھے،جن پر اپنے مطالبات کو درج کیا تھا۔ مظاہرین نے ایک بار پھر سرکار کی جانب سے طے کی گئی قیمتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے جو نرخ نامہ مقرر کیا ہے وہ یک طرفہ ہے اور انہیں اس سلسلے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔مظاہرین میں شامل خورشید احمد نے بتایا کہ انہیں اس قمیت پر مال ہی دستیاب نہیں ہے،جس کے نتیجے میں انہیں اپنی دکانیں بند کرنی پڑتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ مال چوری چھپے وادی پہنچایا جا رہا ہے اور وہ ان ہی لوگوں کو سپلائی کیا جاتا ہے جو اضافی قیمتیں فراہم کرتے ہیں،جس کے بعد وہ قصاب بھی اس کو بلیک مارکیٹ میں سابقہ قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔خورشید احمد نے محکمہ خوراک و رسدات و امور صارفین و عوامی تقسیم کاری کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 100 قصابوں کی جانب سے480روپے فی کلو گوشت فروخت کرنے کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ وادی کے30ہزار قصابوں کو بے روزگار بنایا جائے،جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ قصاب بھی حکام کے سامنے480 روپے میں گوشت فروخت کرتے ہیں اور باقی اوقات میں سابقہ قیمتوں پر ہی فروخت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے چوری چھپے وادی مال پہنچانے کا سلسلہ بند کیا جانا چاہے۔احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ پہلے5 اگست کے بعد کی صورتحال اور بعد میں کرونا وائرس کے پھیلائو اور اب سرکاری فیصلے کے نتیجے میں ان کا کاروبار ختم ہوگیا ہے اور وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔احتجاج میں شامل ایک بزرگ گوشت فروش نے جذباتی انداز میں کہا کہ ان کا قصور کیا ہے جب انہیں کم قیمتوں پر مال دستیاب نہیں اور انہیں مجبوری کی حالت میں دکان بند کرنے پڑتے ہیں،جس کے نتیجے میں ان کے چولہے بھی ٹھنڈے ہوگئے ہیں۔ مظاہرین نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ ایک کمیٹی کو تشکیل دیا جائے،جس میں انتظامی افسران اور فریقین کے علاوہ صحافیوں اور سول سوسائٹی ممبران کو شامل کیا جائے تاکہ وہ بیرون منڈیوں کا دورہ کرکے قیمتوں کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کریں،جس کے بعد ہی سرکار گوشت کی قیمت مقرر کرے۔