خواجہ معین الدین نقشبندیؒ(م:۱۰۸۵ھ) جید عالم دین اور صوفی تھے ۔ظاہری و باطنی علوم اپنے والد ماجد سے حاصل کیے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے علماء، فضلاء اور حکمران طبقہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے ۔ آپ باریک اور دقیق مسائل حل کرانے میں بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے ۔ انھوں نے کچھ دوسرے علماء کی تعاون سے ’ فتاویٰ نقشبندیہ ‘ تالیف فرمائی ۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’زبدۃ التفاسیر‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی جس کاایک نسخہ خدا بخش لائبریری پٹنہ بہار میں موجود ہے۔زبدۃ التفسیر ایک علمی ذخیرہ ہے اور اس پر ترتیب و تدوین کا کام معروف محقق ڈاکٹر مظفر حسین ندوی نے کیا ۔ ڈاکٹر موصوف نے اس کومحنت ، لگن اور عرق ریزی کے ساتھ اٹھارہ جلدو ں میں مرتب کر کے تیار کیا اور ابھی تک اس کے صرف چار جلدیں شائع ہوئیں ۔ڈاکٹر ندوی نے اس تفسیر میں کافی اضافہ کیا ،انھوں نے اس میں جلالین کا منہج اختیار کیا ،لغت پر خوب بحث کی ، قدیم و جدید کے اٹھارہ تفاسیر سے استفادہ کیا، احادیث کی تخریج کی اور حاشیہ کے آخر میں خلاصۃ التفاسیر بھی لکھا ہے ۔ خواجہ معین الدین نقشبندی ؒنے فارسی زبان میں بھی ’’شرح القرآن ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی ۔۔ملا محمد سعید گندسو ؒمعروف مبلغ اور عالم دین تھے ۔آپ علوم اسلامیہ کے بحر بے کراں تھے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مفاتیح البرکات کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ۔حاجی محمد کشمیریؒ تفسیر،حدیث اور فقہ کے نامور عالم دین تھے۔ انھوں نے فارسی میں ’’تفسیر القرآن ‘‘ کے نام سے تفسیر لکھی کیوں کہ فارسی کو اس دور میں عروج حاصل تھا ۔کشمیر میں قرآنی لغت پر بھی کام ہوا ہے جس میں شیخ محمدمراد کشمیریؒ(م : ۱۱۳۱ھ)کا نامی گرامی قابل ذکر ہیں ۔ محمد مراد کشمیری صاحب کمال بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر التصانیف اور ممتاز عالم دین بھی تھے ۔ انھوں نے تاویلات قرآنی اور چہل حدیث جیسی نادر کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے فارسی زبان میں جامع المفردا ت کے نام سے قرآنی الفاظ کی تشریح و توضیح کی ۔ یہ کام انھوں نے بارہویں صدی ہجری میں انجام دیا ہے ۔ بیسویں صدی میں نابغہ روزگار شخصیات نے علوم اسلامیہ قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں ان میں مولوی یوسف شاہؒ ، انور شاہ کشمیریؒ ، مولانا قاسم شاہ بخاریؒ، نورالدین ترالی ؒ قابل ذکر ہیں ۔ کشمیر میں قرآن کریم کے ترجمہ کی عظیم روایت کا سلسلہ انیسویں صدی کے اوآخر میں ہوا اور سب سے پہلا کار خیر محمد یحیٰ شاہ ؒ نے انجام دیا ۔انھوں نے ایک ـضرورت کے تحت قرآن کا ترجمہ کیا اور ان کا ترجمہ صرف پارہ عم تک محدود تھا لیکن انہی کی وجہ سے کشمیری زبان میں قرآن مجیدکی ترجمہ نگاری کا سلسلہ چل پڑا ۔ ایک طویل عرصہ رہتی یہ سلسلہ ماند پڑگیا ۔محمد یحیٰ شاہ ؒکے ہی پوتے مولانا محمد یوسف شاہؒ (1895-1968)نے ا س روایت کو نہ صرف پھر سے منظم اندا زمیں شروع کیا بلکہ اس سلسلہ کو حسن و استحکام بھی بخشا ۔ مولانا محمد یوسف شاہ ؒ تفسیر ،حدیث ،فقہ ،تاریخ اور ادب میں عبور رکھتے تھے ۔ انھوں نے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ’ بیان القرآن ‘کے نام سے کیا ۔یہ قرآن مجید کا سب سے پہلا مکمل ترجمہ بھی ہے اور تفسیر بھی۔ انھوں نے اس کا ترجمہ انتہائی سلیس اور بامحاورہ زبان میں کیا اور یہ آج بھی کشمیری زبان میں سب سے معروف ترجمہ وتفسیر ہے۔انھوـں نے بعض آیتوں کی تفسیر میں تفصیل سے اور بعض میں اجمال سے کام لیا ۔ عبد الطیف، شیخ عبدالرشید اور عبدالطیف بٹ نے ترجمہ اور تفسیر پر نظر ثانی کی ہے ۔ اس کے بعدایک اور عالم دین سیدجلال الدین اعجاز نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور انھوں نے سلیس زبان میں قرآن مجید کاکشمیری زبان میں ترجمہ کیا ۔ اس ترجمہ کا نام انھوں نے اعجاز القرآن رکھا ہے ۔ مرزا غلام حسن عارف بیگ مرحوم نے بھی قرآن مجید کا کشمیری زبان میں منظوم ترجمہ کیا جس کا نام ’’عرفان قرآن ‘‘ رکھا گیا لیکن یہ مکمل نہیں تھا ۔ اس ترجمہ میں کچھ متضاد باتیں بھی تھے جن پر اہل علم نے تنقید بھی ہے ۔ بعد میں ڈاکٹر عبدالرحمٰن وار نے اس ایڈیٹ کر کے چار جلدوں میں شائع کیا ۔ڈاکٹر وار صاحب نے اس میں جگہ جگہ تصحیح کا کام کیا ۔ انھوں نے قرآن مجید کے ترجمہ میں عربی متن کا نہ صرف خاص لحاظ رکھا بلکہ عربی متن کے عین مطابق بھی ترجمہ کیا ۔اس کے علاوہ ڈاکٹر موصوف نے اشعار کی تصحیح بھی کر دی اور غیر ضروری بحثوں کو بھی حذف کر دیا ۔ انھوں نے چوبیس سال کی مدت میں یہ کار خیر پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ڈاکٹر وار نے’’معجم التاویل لالفاظ التنزیل‘‘ کے عنوان سے ایک بہترین معجم بھی تیار کی جس میں انھوں قرآن مجید کے الفاظ کی توضیح و تشریح کی اور یہ دس جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس کے بعد جس بزرگ اور عالم دین نے قرآن مجیدکا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا ،ان کا نام مولانا محمدقاسم بخای ؒ1910-2000) ) ہیں ۔ انھوں نے علم دین کی ترویج و اشاعت کو اپنا مشغلہ بنایا ۔ آپ بیسویں صدی میں کشمیر کے بڑے مصنف تھے ۔ انھوں نے دین اسلام کو عام فہم زبان میں پیش کرنے کے لیے سب پہلے ماہنامہ ’التبلیغ ‘ اور اس کے بعد ماہنامہ ’ الاعتقاد ‘ جاری کیا ۔ آپ علوم اسلامیہ کے بحر بے کراں تھے ۔انھوں نے چار جلدوں پر مشتمل تفسیر’’ کفایت البیان‘‘ کے عنوان سے کشمیر ی زبان میں لکھااورترجمہ بھی اسی نام سے کیاہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے فن تفسیر پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان’’ ترتیب السور و حروف المقطعات‘‘ ہے ۔ کپرن (شوپیاں ) کے رہنے والے گلزار احمد پرے نے بھی قرآن مجید کا مکمل ترجمہ بعنوان ’’اسرار القرآن کوشر ترجمہ قرآنی ‘‘ کیا ۔یہ ترجمہ انھوں نے ۱۹۸۲ ء میں شروع کیا اور ۲۰۱۷ ء میں پایہ تکمیل تک پہنچا ۔ اس کے پہلے پانچ پارے ۱۹۹۳ء میںشائع ہوچکے ہیں اورپارہ عم کی بھی اشاعت ہوئی ۔باقی ۲۴ پارے زیر طبع ہے ۔موصوف نے اس کا ترجمہ براہ راست عربی سے کشمیری زبان میں کیا ۔انہیں دونوں عربی اور کشمیری زبانوں پر عبور حاصل ہے ۔ انھوں نے کشمیری زبان اور پولیٹکل سائنس میں ایم ۔ اے کی ڈگریاں بھی حاصل کیں ۔ ان کے علاوہ قرآن مجید کے ایسے بھی چند مترجمین ہیں جنھوں نے قرآن مجید کے کسی سورہ یا پارہ کا ترجمہ کیا ۔ان کے ترجمے زیادہ ترتیسویں پارہ پر مشتمل ہے کیوں کہ اس میں چھوٹی چھوٹی سورتیں ہیں جو ہر خاص و عام کی زبان زد رہتی ہیں۔ اسی لیے یہ ترجمے ضرورت کے مطابق کئے گئے تھے ۔ پارہ عم کے مترجمین میں سے ایک اہم نام مولانا سعد الدینؒ ہیں، وہ ایک بہترین مبلغ، ہردلعزیز داعی اور مربی تھے۔ انھوں نے پارہ عم کا کشمیری زبان میں خوبصورت ترجمہ کیا ہے اور اس کے علاوہ موصوف نے مولانا ابوالکلام آزاد ؒکی تفسیر ام الکتاب جو سورہ فاتحہ کی مبسوط تفسیر ہے ،کا بھی کشمیری زبان میں منتقل کیا ہے ۔انھوں نے دین کے مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا اور جاندار تحریریں قلم بند کیں۔اُن کی تحریریں انتہائی آسان اور عام فہم ہیں۔اور اُسلوب نہایت دلکش اور پُر کشش ہے۔ اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔اس لیے ان دونوں زبانوں کے اثرات بھی اُن کی تحریروں میں نمایاں ہیں۔علامہ انور شاہ کشمیریؒ (1875-1933عالم اسلام کی ایک دیدہ ور شخصیت گزری ہے وہ علمی دنیا میں حقیقی معنوں میںگوہر نایاب تھے ۔مختصر الفاظ میں ان کی علمی خدمات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔ علامہ کشمیری ؒکا بنیادی میدان حدیث اور علم حدیث تھا ۔ انھوں نے فقہ و حدیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے میں بھی اہم علمی کارنامہ انجام دیا ۔ ان کا علم صرف حدیث تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ انہیں علم تفسیر پر بھی ید طولیٰ حاصل تھا ۔ اگر چہ انھوں نے باضابطہ کوئی تفسیر نہیں لکھی لیکن ان کی تصانیف میں قرآنی آیتوں کی تشریح و توضیح جگہ جگہ ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ انھوںنے’ مشکلات القرآن ‘ کے عنوان سے اہم کتاب لکھی جس میں انھوں نے قرآنی مشکلات کے سلسلہ میںمشکل آیتوں کی تشریح کی ہے۔ یہ بھی ان کا ایک بڑا علمی کارنامہ ہے ۔ قرآن اور تفسیر کے ساتھ ان کو غیر معمولی شغف تھا ۔چناچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اگر آدمی صحیح بصیرت کے ساتھ احادیث میں غور و فکر کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ اکثر و بیشتر احادیث قرآن کے اجمال کا بیان اور اس کے اشارات کی توضیحات ہیں ۔بلکہ کثرت سے ایسے احادیث ہیں جن میں تعمیرات قرآنی کے لطیف اچارے ملتے ہیں ‘‘ (مقدمہ ،مشکلات القرآن،ص:۱۴)مولانا مصطفی انصاری ؒشیعہ عالم دین تھے اور سرینگر میں رہتے تھے ۔موصوف ایک صاحب طرز ادیب بھی تھے ۔ انھوں نے بھی نصف قرآن کا ترجمہ‘کشف الانیق‘ کے عنوان سے کیا جس کاصرف سورۃ البقرہ شائع ہوا ۔اس کے علاوہ انھوں نے سیرت پر بھی کتاب لکھی ہے جس کا نام آفتاب نبوت ہے ۔ پروفیسر عبداللہ شیدا نے بھی پارہ عم کا ترجمہ کیا ہے ۔ اس فہرست میں ایک اور نام شامل ہے جن کا نام مولانا احمد اللہ ہیں انھوں نے بھی پارہ عم کا ترجمہ کیا ہے ۔ ا طہر منیگامی (گاندربل)نے تفہیم القرآن کے پارہ عم کا کشمیری زبان میں سلیس ترجمہ کیا اور یہ جدید رسم الخط میں دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی(از مولانا مودودیؒ )کا بھی کشمیری میں ترجمہ زیر طبع ہے ۔غرض کہ کشمیری زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر کا سلسلہ جاری ہے اور متنوع انداز سے قرآن مجید کی خدمت ہورہی ہے ۔ (ختم شد)
رابطہ 9045105059