کشمیر مذہبی سرگرمیوں اور علم ادب کے لیے صدیوں سے ذرخیز رہا ہے ۔ اسلام کے لیے بھی اس سرزمین نے ہمیشہ اپنا دامن وسیع رکھا ۔دوسری صدی ہجری سے ہی کشمیر میں اسلام کی کرنیں پھوٹ پڑیں ۔ تمیم بن اُسامہؓ اور سلیط بن عبدللہؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دو ایسے مبلغین ہیں جو کشمیر میں اشاعت اسلام کی غرض سے کشمیر میں تشریف لائے ۔ اس کے بعد علماء، اولیائے کرام اور داعیانِ عظام نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں نمایاں رول ادا کیا ۔ اسلام کی اشاعت سے پہلے یہاں کفر و شرک عروج پر تھا۔کشمیر کا ابتدائی مذہب ناگ پوجا (سانپ کی پرستش ) تھا ۔ بعد میں یہاں کے لوگوں نے بدھ دھرم اختیار کیا تھا اور یہ مذہب کشمیر کے کونے کونے تک پہنچ گیا اور بدھوں کی تیسری تاریخی کانفرنس کشمیر ہی میں منعقد کرائی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ یہاں لوگوں نے شیومت بھی اختیا کیا جس میں وحدت پرستی (Monotheism)کا عنصر غالب تھا ۔جب اسلام اہل کشمیر کو فیض یاب کرانے کے لے ہیاں پہنچا تو اس وقت یہاں شیومت کا غلبہ تھا اور اسلام کو بدھ ازم کے علاوہ شیومت کا بھی سامنا کرنا پڑھا ۔بعد میں یہاں ہندوازم کا بھی کافی اثرو رسوخ قائم ہوا تھا ۔ان کے پیشواؤں نے عام لوگوں کو ذات پات اوررنگ و نسل میں الجھا کر رکھ دیا تھا ۔ لوگ برہمنوں اور ہندووں کے مذہبی ٹھیکہ داروں کے سلوک اور ان کی بالادستی سے مطمئن نہیں تھے ۔عالمگیر اور خوب صورت تعلیمات کی بنا پر اسلام نے قلیل مدت میں یہاں کے لوگوں کو بے حد متاثر کیا ۔اسلام کا نظریہ توحید ، تصور عدل و انصاف اور اسلام کی معاشرتی تعلیمات ان کے لئے باعث کشش تھیں ۔اس طرح سے کشمیر میں اسلامائزیشن کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اشاعت اسلام کے بعد بدھ اور ہندو دھرم کا اثر و رسوخ اور غلبہ قطعی طور ختم ہوگیا اور اسلامی فکر و فن اور تہذیب و ثقافت نے ماقبل فکر وتہذیب کی جگہ لے لی ۔ ابتدا میں اسلام کے مبلغین، دعاۃ اور علماء صرف عام فہم تعلیمات اسلام پر زور دیتے تھے ۔بعد میں قرآن اور حدیث کی طرف براہ راست توجہ مرکوز ہوئی ۔ کشمیر میں سب سے پہلے شیخ نور الدین عبدالرحمٰٗن اصفہانی ؒ(ایران)نے اسلام کی تبلیغ کی ، ان کی تبلیغی سرگرمیوں کی شہادتیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔آپ بڑے پایہ کے بزرگ اور اور مبلغ تھے۔ ان کے بعد حضرت شرف الدین بلال عرف بلبل شاہ ؒکی کوششوں سے کشمیر میں اسلام کا نور پھلنے کا باضابطہ آغا ہوا اور انھوں نے متلاشان حق کو پیغام حق سے مالا مال کیا ۔ رشد و ہدایت کا یہ عظیم سلسلہ چلتا رہا اور حضرت بلبل شاہ ؒ کے بعد کئی مبلغ ، بزرگ اور علما وارد کشمیر ہوئے جن میں سید جلال الدین البخاری ؒ، سیدتاج الدین ؒ(سید علی ہمدانی ؒکے چچیرے بھائی )،سید حسین سمنانی (سیدتاج الدین ؒ کے چھوٹے بھائی )سید مسعودؒ اور سید یوسفؒ قابل ذکر ہیں ۔ امیر کبیرسیدہمدانیؒ المعروف شاہ ہمدان ( (1314-1384 ۲۲ سال کی عمر میں۷۹۶ء میںسادات کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ کشمیر تشریف لائے۔ کشمیر کی سرگرمیوں میں خطہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر اسلام پھیلا ان سے پہلے لوگ کھل کے اسلام قبول کرنے کا اظہار نہیں کرتے تھے لیکن امیر کبیرؒکی تبلیغی کوششوں اور کردار کی بدولت لوگ علی الاعلان اور وسیع پیمانے پر اسلام قبول کرنے لگے ۔کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھوں پر ۳۷ ہزار افراد نے اسلام قبول کیا ۔شاہ ہمدانؒ اور ان کی تعلیمات کی وجہ سے کشمیر میں احیائے اسلام کا باضابطہ آغاز ہوا ۔آپ نہ صرف داعی ،مربی اور مرشد تھے بلکہ بلند پایہ کے مصنف بھی تھے ۔ ان کا علم کسی ایک فن تک محدود نہ تھا بلکہ ہر فن میں انہیں اختصاص حاصل تھا ۔آپ کی تصانیف میں ذخیرۃالملوک ، مجمع الاحادیث،مراء التائبین ،اور شرح فصوص الحکم ،رسالہ نوریہ ،درحقائق توبہ ،رسالہ مکتوبات ،حل النصوص علی الفصوص،علم القیامہ،کتاب المودہ فی القربیٰ،فردوس الاخبار اور اوراد الفتحیہ قابل ذکر ہیں ۔کشمیر میںعلم تفسیر پر ان کو اولیت حاصل ہے ۔انھوں نے ناسخ و منسوخ پربھی ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’الرسالہ فی الناسخ والمنسوخ ‘‘ہے ۔ ذخیرۃالملوک میںانھوں نے ہر باب کا آغاز قرآن مجید کی آیات سے کیا ہے ۔علامہ اقبالؒ نے ان کے متعلق فرمایا ہے :
سید السادات سالار عجم دست او معمار تقدیر امم
شاہ ہمدان کے بعد ان کے فرزند ارجمند میر محمد ہمدانیؒ تین سو سادات اور علمائے کرام کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے ۔ان کی وجہ سے دینی فضا (Islamization) کو وسعت ملی۔ میر محمد ہمدانی ؒہی کی بدولت سلطان سکندر نے ملک میں شرعی احکام نافذ کیا اور شراب ، قمار بازی اور رقص و سرود کو منع کر دیا ۔اس کے علاوہ انھوں نے مساجد اور خانقاہیں تعمیر کرائیں اور بچوں کی تعلیم تربیت کے لیے مدرسے کھولے ۔میر سید ہمدانیؒ ایک بہترین مصنف بھی تھے آپ کی وجہ سے بھی کشمیر میں علوم اسلامیہ کو فروغ حاصل ہوا۔امیر کبیر ؒکے رفقا میں سے پیر محمد حاجی محمد قاری ؒبھی تھے، کلام اللہ سے بے حد شغف تھا ۔آپ حافظ و قاری بھی تھے اور سات قراتوـں سے تلاوت کرسکتے تھے ۔آپ لوگوں قرآن پڑھاتے اور ان کی تعلیم تربیت کرنے پر معمور تھے ۔ سید حسین سمنانی ؒ کشمیر کے بڑے ولی اللہ میں سے تھے ۔ آپ امیر کبیر ؒکے چچیرے بھائی تھے ۔ دین اسلام کی اشاعت میں ان کا اہم کردار تھا ۔سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومی ؒبابا فتح اللہ سے قرآنی تعلیم حاصل کر کے شمس چک کے مدرسہ میں ۲۰ سال تک تفسیر ، فلسفہ اور اخلاقیات وغیرہ سے اپنے دل و دماغ کو منور کیا ۔آپ ؒکو تفسیر قرآن پر درک حاصل تھا ۔آپ کی قرآن فہمی کے بارے میں بابا داوود خاکی ؒنے کہا کہ ’’نہ صرف عبارت بلکہ اسرار و خوص سے متعلق جو کچھ سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومیؒ مجھ سے بیان فرماتے بعینٖہ کتابوں میں وہی موجود ہوتا ‘‘ ۔سلطان العارفین ؒنے لوگوں کی تعلیم و تربیت کرنے میں اہم رول ادا کیا اور ان کی کوششوں سے لوگوں کے دل و دماغ اسلام پر نہ صرف مطمئن ہوئے بلکہ ان میں اتحاد و اتفاق بھی مستحکم ہوگیا ۔ شیخ بابا داوود خاکیؒ عظیم المرتبت شخصیت تھے، انہیں امام اعظم ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ ، داعی ،مربی اورولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ کثیر التصانیف شخصیت بھی تھے ۔آپ کی تصانیف میں وردالمریدین اور اس کی شرح دستور السالکین ، اور قصیدہ جلالیہ، رسالہ ضروریہ ،قصیدہ غسلیہ قابل ذکر ہیں ۔ شیخ یعقوب صرفی ؒ ((1521-1595کشمیر کے جید اور کبار علما میں شمار ہوتا ہے اور صاحب کثیر التصانیف بھی تھے ۔عربی ، فارسی اورعلوم اسلامیہ پر انہیں زبردست عبور حاصل تھا ۔ ۔آپ نے بخاری شریف کی شرح لکھنے کے علاوہ بہت سی تصانیف تحریر فرما ئیں۔ ان کی قرآنی خدمات قابل تحسین ہے اور جن کا تذکرہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ شیخ یعقوب صرفی ؒ نے درس و تدریس کے ذریعہ سے لوگوں میں قرآن کا پیغام عام کیا ۔آپ نے قرآن کے معارف کو کھول کھول کر بیان کیا ۔ انھوں نے قرآن مجید کے آخری دو پاروں کی تفسیر لکھی ۔ اس کے علاوہ فیضی کی معروف تفسیر ’سواطع الالہام‘ پر عربی میں تقریظ بھی لکھی ۔ تاریخ کی کتابوں سے اس بات کی بھی شہادت ملتی ہے کہ انھوں نے ’’مطالب الطالبین فی تفسیر الکلام رب العالمین ‘ ‘کے عنوان سے تفسیر بھی لکھی ہے ۔ ان کی علمی شان یہ تھی کہ مجدد الف ثانی ؒ جیسی مجدد امت ان کے شاگرد تھے ۔ حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین ولی ؒ (م:۸۴۲ھ)نے لوگوں کو اسلام کی حقیقی روح سے روشناس کیا اور ان میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کیا ۔قرآنی خدمات میں حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین ولی ؒ کا رول نمایا ں ہے ۔ وہ قرآن مجید کا عظیم کشمیری مفسرتھے۔ انھوں نے جگہ جگہ اپنے کلام میں قرآن کے اسرار و معارف کے خزانوں کو بے باک انداز سے مبرہن کیا ۔ان کی پوری فکر قرآن کے ارد گرد گھومتی ہے ۔ قرآن مجید کے بارے میں ان کا یہ قول ہزاروں کے برابرہے ؎
قرآن پران کونو مودکھ قرآن پران کونہ گوی سور
قرآن پران زند کیتھ رودکھ قرآن پران دود منصور
یعنی قرآن پڑھتے پڑھتے تونے جان کیوں دی اور تو بھسم کیوں نہیں ہوگیا ۔قرآن پڑھتے پڑھتے تو کیوں زندہ رہا اور قرآن پڑھتے پڑھتے منصور جل گیا ۔
خواجہ معین الدین نقشبندیؒ(م:۱۰۸۵ھ) جید عالم دین اور صوفی تھے ۔ ظاہری و باطنی علوم اپنے والد ماجد سے حاصل کیے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے علماء، فضلاء اور حکمران طبقہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے ۔ آپ باریک اور دقیق مسائل حل کرانے میں بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے ۔ انھوں نے کچھ دوسرے علماء کی تعاون سے ’ فتاویٰ نقشبندیہ ‘ تالیف فرمائی ۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’زبدۃ التفاسیر‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی جس کاایک نسخہ خدا بخش لائبریری پٹنہ بہار میں موجود ہے۔زبدۃ التفسیر ایک علمی ذخیرہ ہے اور اس پر ترتیب و تدوین کا کام معروف محقق ڈاکٹر مظفر حسین ندوی نے کیا ۔ ڈاکٹر موصوف نے اس کومحنت ، لگن اور عرق ریزی کے ساتھ اٹھارہ جلدو ں میں مرتب کر کے تیار کیا اور ابھی تک اس کے صرف چار جلدیں شائع ہوئیں ۔ڈاکٹر ندوی نے اس تفسیر میں کافی اضافہ کیا ،انھوں نے اس میں جلالین کا منہج اختیار کیا ،لغت پر خوب بحث کی ، قدیم و جدید کے اٹھارہ تفاسیر سے استفادہ کیا، احادیث کی تخریج کی اور حاشیہ کے آخر میں خلاصۃ التفاسیر بھی لکھا ہے ۔ خواجہ معین الدین نقشبندی ؒنے فارسی زبان میں بھی ’’شرح القرآن ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی ۔۔ ملا محمد سعید گندسو ؒمعروف مبلغ اور عالم دین تھے ۔آپ علوم اسلامیہ کے بحر بے کراں تھے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مفاتیح البرکات کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ۔حاجی محمد کشمیریؒ تفسیر،حدیث اور فقہ کے نامور عالم دین تھے۔ انھوں نے فارسی میں ’’تفسیر القرآن ‘‘کے نام سے تفسیر لکھی کیوں کہ فارسی کو اس دور میں عروج حاصل تھا ۔کشمیر میں قرآنی لغت پر بھی کام ہوا ہے جس میں شیخ محمدمراد کشمیریؒ(م : ۱۱۳۱ھ)کا نامی گرامی قابل ذکر ہیں ۔ محمد مراد کشمیری صاحب کمال بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر التصانیف اور ممتاز عالم دین بھی تھے ۔ انھوں نے تاویلات قرآنی اور چہل حدیث جیسی نادر کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے فارسی زبان میں جامع المفردا ت کے نام سے قرآنی الفاظ کی تشریح و توضیح کی ۔ یہ کام انھوں نے بارہویں صدی ہجری میں انجام دیا ہے ۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
رابطہ 9045105059