ڈاکٹر عاشق حسین
انسانی تاریخ میں کئی افراد آئے اور چلے گئے تاہم یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ کوئی شخص کتنا اہم ہے اور اس کے جانے سے روشن مستقبل پر کتنا بڑا اثر ہو سکتا ہے۔ لیکن مدرس ، معلم، ماہر، شاعر اور مصنف غلام حسین ملک عرف درد پیامی کی وفات نے سب کو افسردہ کر دیاہے۔ ان کی رحلت سے ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوا ہے جس کے اثرات علم و ادب کے دائرے میں صدیوں تک رہیں گے۔
غلام حسین ملک ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جو تعلیم اور ادب کے شعبے میں بے مثال تھے۔ انہوں نے اپنی تمام تر زندگی تلاشِ علم و اپنی تعلیمی اور ادبی صلاحیتوں کو دوسرے لوگوں کو سکھانے اور روشنی پھیلانے میں لگائی۔ درد پیامی ایک ایسی شخصیت تھے جن کی کمی نے تمام ادیبوں، شاعروں اور تصنیف کاروں کو یہ محسوس کروایا کہ ان کے اس خلاء سے ایک عہد خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ان کی وفات نے ہمارے معاشرتی ، سماجی و تعلیمی ماحول میں ایک بڑا خسارہ پیدا کیا ہے۔
غلام حسین ملک ایک شاعر، مصنف، عالم اور استاد تھے جو اپنی فکری اور ادبی خدمات کے لئے معروف تھے۔ ان کے لکھے ہوئے اشعار اور نثر ان کے خوبصورت انداز کی عکاسی کرتے ہیں جو اردو کے ساتھ ساتھ دوسری ذبانوں میں بھی ہم تک پہنچا کرتے تھے۔ ان کے لباس اور ان کی بات چیت میں بھی ایک گہرا انداز تھا جس میں ایک مخلص انسان کا رنگ نظر آتا تھا۔ ان کا میل ملاپ و ہم کلام ہونے کا انداز ان کو دوسرں کے درمیان محبوب بنا دیتا تھا۔
ملک درد پیامی کے تعلیمی اصولوں میں شدت کی پڑھائی، تحقیق اور فکری تجزیہ کا اہم رویہ تھا۔ انہوں نے علمی و دانشورانہ موضوعات کے علاوہ، انسانیت اور اخلاقیات کو بھی اپنے تعلیمی مقامات کا حصہ بنایا تھا۔ ان کے انداز اور تعلیمی مداخلت کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے طلباء علم و فن کے میدان میں کامیابی حاصل کرتے رہے اور ان کی کامیابیاں غلام حسین ملک کے لئے ایک بڑے فخر کا باعث تھیں ورنہ یوں ہی ان کو فخرِ بھلیسہ کے اعزاز سے نوازا نہیں جاتا۔
غلام حسین ملک درد پیامی کی ادبی خدمات نے اردو ادب کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی ایک نئے انداز اور سوچ کے ساتھ نوازا۔ ان کی نظمیں اور نثر کا ایک خصوصی انداز تھا جو ان کو دوسرے ادباء سے منفرد بناتاتھا۔ انہوں نے اپنی کئی تصانیف کے ذریعے قارئین کے دلوں میں جگہ بنائی اور ان تصنیفات نے ان کے فکری اور اخلاقی پیغام کو مرکوز رکھتے ہوئے عوام الناس کو آگاہ کیا۔ ان کے اشعار انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ا یک مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ علاوہ اذین ان کے اشعار محبت، پیار، انسانیت اور معاشرتی امور پر بھی مبنی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی نظموں کا مطالعہ کرنے والے افراد کو اپنی زندگی کے مشکلات سے متعلق ان کے اشعار سے حوصلہ و نیا جوش ملا کرتا ہے۔ان کے اشعار اور نثر کا مطالعہ کرنا ایک فرحت اور سبق آموز تجربہ ہے جو ان کے شاگردوں کے دلوں میں ان کی محبت کو مزید بڑھاتا ہے۔ غلام حسین ملک نے نظم اور نثر کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں بھی اپنی معرفت کا سکہ بٹھایا ہوا تھا۔ ان کے دلچسپ واقعات، تجارت اور تعلیمی فلسفے کو سنوارنے والے مضامین نے تعلیمی دنیا میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
غلام حسین ملک درد پیامی کے انتقال کے بعد، اس علاقے کی تعلیمی اور ادبی تنظیموں میں ایک بڑا خسارہ ہوا ۔خاص کر ان کے شاگرد اور محبان نے اپنے روشن مستقبل کا ایک رہبر کھو دیا۔ ان کی رحلت سے تعلیمی شعبہ کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ وہ ایک ہمیشہ یاد رہنے والے شخصیت تھے جن کو اپنی محنت و تعلیم کے میدان میںدی گئی خدمات اور ادبی کارکردگی کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی شعری اور مضامین کی روشنی میں، ہم ان کی یادوں کو سنوارتے رہیں گے اور آگے چل کر ان کو آئینے کی طرح لے کر اپنی زندگی کو بھی سنواریں گے تا کہ ان کی روح کو سکون ملے۔
اگر چہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے معلم، شاعر اور مصنف کے سفر کا اختتام ہو گیاہے لیکن ہمارے پاس ان کے کاموں کی ایک خوبصورت وراثت ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کے ادبی انعکاس کے ذرائع سے ہم اپنی تعلیمی، فکری، سماجی اور شعوری سطح کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ان کے اشعار سے مستفید ہو کر ہم اپنے زندگی کے ہر پہلو کو روشن کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کی یادوں کو سلامت رکھتے ہوئے آپ کے کاموں کو جاری رکھ سکتے ہیں اور رکھنا ہی ہوگا۔ آپ کی علمی میراث کو قدر دانی کرنا ہمارا فرض ہے۔
(ڈاکٹر عاشق حسین گورنمنٹ ڈگری کالج چھاترو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)