ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ یعنی مجرم، خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانی، خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بجائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کا نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپؐ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سے روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خُوش گوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو کُھلے اور صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی آپؐ کے اپنے عفو و درگزر کے ان گنت واقعات ملتے ہیں۔ حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا: تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔
آج ہمارے معاشرے کو بدلہ، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر شخص نواب کے مقابلے میں ڈیڑھ نواب بننے کو تُلا بیٹھا ہے۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے، ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر چکا ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔
ہمیں محض ارادہ نہیں بل کہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم ایسی زندگی گزاریں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہو۔ معاشرے کو خُوش گوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں، لوگوں کی غلطیاں معاف کریں کہ قیامت کے دن اللہ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا۔
فتح مکہ کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اپنے دشمنوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تمہیں بخشے، وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔‘‘
یہی خوبی رسول اکرمؐ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،آپ ؐنے اپنے سبھی بدخواہوں،تکلیف دینے والوں کو سدا معاف فرمایا،اپنی ذات کیلئے کبھی کسی سے انتقام نہ لیا، اور فتح مکہ کے دن تو تاریخی ریکارڈ ٹوٹ گیا کیوں کہ آپ ؐنے بے مثال عفو و درگزر کا مظاہرہ فرمایا،جنہوں نے ظلم کے سارے حدود پار کردئے تھے، وہ آپ کے سامنے بے بس تھے،آپ فاتح تھے، وہ مفتوح تھے ،لیکن آپؐ نے سبھی کو معاف کردیا،آپؐ نے بدلہ نہیںلیا، یہ عظیم پیغمبر کے عفو ودرگذر کی زندہ مثالیں ہیں۔ظاہر ہے کہ معاف کرنے سے اللہ کی محبت ملتی ہے،اللہ کی محبت پانا بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔اللہ نے فرمایا:’’اور جوغصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘(آل عمران:۱۳۴)اور جب رب العالمین کسی سے محبت کرتا ہے،تو فرشتے بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں اس کیلئے محبت اور قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔پیارے نبیؐ نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے، میں محبت کرتا ہوں فلاں بندے سے تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبرئیل علیہ السلام محبت کرتے ہیں اس سے اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے فلاں سے تم بھی محبت کرو اس سے، پھر آسمان والے فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں۔ بعد اس کے زمین والوں کے دلوں میں وہ مقبول ہو جاتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم:۶۷۰۵)
جب آپ اسے معاف کرتے ہیں، جس نے آپ کو دکھ دیا ہے،تو اللہ تعالیٰ بھی آپ کی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے،مغفرت فرما دیتا ہے، یہ عفو درگذر کا کتنا بڑا انعام ہے،ادھر آپ اپنے بھائی کی غلطی معاف کرتے ہیں اور اُدھر رب آپ کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔سبحان اللہ!
معاف کرنا رحم دل انسان کا کام ہے،پتھر دل لوگ یا تو بدلہ لیتے ہیں یا دلوں میں نفرت وعداوت کو پالتے ہیں،لیکن رحم دل،نرم دل انسان معاف کردیتا ہے،اور رحمان کی رحمت کا حق دار بن جاتا ہے، جسے رب کی رحمت مل جائے اس کی زندگی پرامن اور بابرکت بن جاتی ہے۔معافی مانگ لینا یا دوسروں کو معاف کر دینا ایسا بہترین عمل ہے جس سے آپ اپنی ذات کے اندر ہمیشہ اطمینان اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔معاف کر دینے میں اور معافی مانگ لینے میں نجات ہے اور دل کا سکون ہے اور آپ کےلیےاس میں سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ معاف کردینےسےآپ کو اللّٰہﷻ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہونے کا سنہری موقع مل رہا ہےـ۔ تو آئیے اس شاندار عمل کو اپناتے ہیں اس قیمتی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔سب کو معاف کر کے جنّت کے سفر پر خوشی خوشی چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دوسروں کو معاف کر دینے اور معافی مانگ لینے کا عظیم جذبہ عطا فرمائے۔
<[email protected]>