شیخ بلال
کسی بھی قوم کانام ،اس کی تہذیب اور اس کی شناخت کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لئے اس قوم کی زبان کا زندہ ہونا بے حدضروری ہوتا ہے۔جس قوم کی زبان زندہ نہیں ہوتی، اُس قوم کی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ قوم کا نام ہی ناپید ہوجاتا ہے ۔ دنیا کی بہت ساری قومیں اور تہذیبیں اس طرح ناپید ہوچکی ہیں جیسے کہ اس دنیا میں تھی ہی نہیں اور کچھ ہزاروں سال پرانی تہذیبیں ایسے زندہ ہیں جیسے کہ یہ تہذیبیں حال ہی میں وجود میں آئی ہوں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کی مادری زبان ،مادری بولی کو کیسے زندہ رکھا جائے ؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کی دو شکلیں ہوتی ہیں، بول چال والی زبان اور تحریری زبان۔ کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے کے لئے اس زبان کا بولنا ، لکھنا اور پڑھا جانا ضروری ہے۔ بہت ساری زبانیں بولی تو جاتی تھی لیکن لکھنا پڑھنا جب بند ہوا تو دھیرے دھیرے وہ بھی ناپید ہوگئیں۔ کسی بھی زبان کا تحریری مواد اگر موجود نہ ہو تو اس قوم پر دوسری زبانوں کا غلبہ ہوجاتا ہے اور اس قوم کے باشندے اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر دوسری زبانوں کو سیکھنے اور بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے لسانی تشخص کو مسخ کردیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کی چار خاص مہارتیں ہوتی ہیں، سمجھنا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا ۔ کسی بھی مادری زبان کا سمجھنا اور بولنا تو بچپن میں ہی تین چار سال کی عمر تک سیکھا جاتا ہے۔ یہ دو مہارتیں بچوں کو اپنے ہی ماحول میں خودبخود آجاتی ہیں، البتہ لکھنا اور پڑھنا کوشش کرکے سیکھا جاتا ہے۔ پڑھنے اور لکھنے کے لئے اس زبان کا ایک مخصوص اور مناسب رسم الخط کا ہونا اور بہت سارا تحریری مواد دستیاب ہونا بہت ضروری ہے۔ اردو، فارسی، عربی ،انگریزی، سنسکرت وغیرہ زبانوں کے لئے ایک مخصوص رسم الخط ہے اور ڈھیر سارا تحریری مواد بھی موجود ہے، اسی لئے یہ زبانیں زندہ ہیں۔ کسی بھی باشندے کے لئے اپنی مادری زبان سمجھنا اور بولنا آسان بھی ہوتا ہے اور چھوٹی ہی عمر میں وہ سمجھنا بولنا سیکھ جاتا ہے ۔
جیسے کشمیر میں رہنے والے لوگ کشمیری بڑی آسانی سے سمجھتے اور بولتے ہیں ،ایسے ہی شینا چونکہ گریز، دراس وغیرہ میں رہنے والے لوگوں کی مادری زبان ہے، اس لئے وہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ، اسے جانتے ہیں اور بلا تکلف بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے، وہ بھی شینا جاننے والوں میں ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم شینا لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ۔ اگر چند سال پہلے کی بات کریں تو شینا کے لئے ایک مخصوص رسم الخط نہیں تھا، لوگ اگر لکھتے بھی تھے تو یا تو صرف خود پڑھ لیتے تھے یا کبھی کبھی خود بھی نہیں پڑھ پاتے تھے ۔رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے شینا کو اردو کے رسم الخط میں ہی لکھا جاتا تھا لیکن اب ہمارے پاس ایک مخصوص اور مناسب شینا رسم الخط موجود ہے، سمجھنا اور بولنا تو ہمیں آتا ہے صرف لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔ شینا کا رسم الخط بالکل بھی مشکل نہیں ہے ،اردو رسم الخط ہی ہے جس کو اردو کی الف بے تے لکھنا، پڑھنا اور جوڑ کر الفاظ بنانا آتا ہو، اسے شینا کا رسم الخط بھی آسانی سے آجائے گا ۔ اردو کے رسم الخط سے چند حروف مختلف ہیں اور چند زائد اعراب و علامات ہیں ۔
اردو کا رسم الخط تو ہے ہی منفرد اور بہترین ،شینا کا رسم الخط بھی ایک مناسب، بہترین، آسان اور ماہرین لسانیات کا پسندیدہ رسم الخط ہے۔شینا کا رسم الخط ہمارے تلفظ، ہمارے لسانی، ادبی، علمی اور ثقافتی سرمائے کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ زبان و قوم کا نام اور ثقافت کی اگر حفاظت کرنی ہے تو ہمیں شینا بولنے سے زیادہ اس کے پڑھنے لکھنے پر زور دینا ہوگا اور محنت کرنی پڑے گی۔ شینا کے رسم الخط کو سیکھ کر لکھنے پڑھنے اور اپنے بچوں کو سکھانے کی سعی کرنی چاہئے۔ اکثر لوگ اپنی مادری زبان چھوڑ کر دوسری زبانوں میں بول چال رکھنے کو فخریہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بڑے گھمنڈ سے دوسری زبانیں سکھاتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ نہ تو اپنی مادری بھاشا اچھے سے بول پاتے ہیں اور نہ ہی دوسری زبانوں کے ساتھ انصاف کرپاتے ہیں۔
شینا زبان بولنے والے افراد کی اکثریت گریز اور دراس میں ہے اور ان علاقوں میں وسائل کی کمی اور بیروزگاری یا تعلیم کے سلسلے میں اکثر لوگ ہجرت کرکے دوسرے علاقوں میں رہنے جاتے ہیں جہاں وہ اپنی تہذیب،ثقافت اور خاص کر اپنی زبان بھی بھول ہی جاتے ہیں۔ہجرت کی وجہ سے انہیں اپنی زبان اور ثقافت بے قیمت لگتی ہے اور وہ دوسری زبانیں اور ثقافت کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ لوگ شاید ہی انصاف کر لیتے ہیں۔ جب شینا کا رسم الخط نہیں تھا تو شینا پڑھنا لکھنا سیکھنا بے انتہا مشکل تھااور ہجرت کی وجہ سے جن لوگوں نے اپنے بچوں کو دوسری زبانیں سکھائیں تھی وہ لوگ چاہ کر بھی شینا سکھا نہیں پاتے تھے کیونکہ شینا زبان میں کوئی تحریری مواد موجود نہیں تھا اور لکھا بھی نہیں جاتا تھا جس سے کہ سکھایا جاتا۔ اب الحمداللہ شینا کے کچھ حقیقی دانشورں اور سچے خیر خواہوں کی محنت اور کاوشوں سے شینا زبان بھی پڑھی لکھی جانے لگی ہے ۔ اب شینا لکھنا پڑھنا ،سیکھنا ،سکھانا بے حد آسان ہوا ہے۔ شینا زبان بولنے والوں کے علاوہ غیر شینا بھی اب آسانی سے شینا زبان بولنا ،لکھنا ،پڑھنا سیکھ سکتے ہیں ۔
شینا رسم الخط بالکل اردو اور عربی کی طرح ہے جس میں کچھ زائد شینا کے مخصوص حروف ہیں ۔ اعراب و حرکات وہی ہیں جو عربی اور کشمیری میں مستعمل ہیں ۔ شینا کو صحت کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے لئے ان سب کا سیکھنا بنیادی ضرورت ہے۔ اردو کے حروف تو ہم آسانی سے لکھ پڑھ سکتے ہیں اور اردو کے حروف ،الفاظ اور جملوں کو سمجھ بھی سکتے ہیں۔ شینا میں اردو زبان میں مستعمل حروف اور مشترک صوتیات کے علاوہ جو منفرد مصوتے( vowels) اور مصمتے (consonants) ہیں، ان کا سیکھنا شینا زبان کے بولنے، لکھنے اور پڑھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ شینا زبان میں چار طرح کے مصوتے ہیں، چھوٹے مصوتے، بہت چھوٹے ،لمبے مصوتے اور بہت لمبے مصوتے ۔ ان چار طرح کے مصوتوں میں کل سترہ مصوتے ہیں جن میں سے آٹھ اردو زبان کے مستعمل مصوتے ہیں اور باقی نو مصوتے شینا زبان کے خاص مصوتے ہیں۔ جہاں تک مصمتوں کا تعلق ہے، اصل میں تو شینا زبان میں وہ سارے مصمتے موجود نہیں ہیں جو اردو ،فارسی ،عربی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ان زبانوں کے الفاظ ایک بڑی تعداد میں شینا زبان میں شامل ہوئے ہیں اور ان کا الفاظ کی وجہ سے جو مصمتے شینا زبان میں شامل ہوئے ہیں، ان کا استعمال ناگزیر ہے اور ان سے کنارہ بالکل نہیں کیا جاسکتا۔ عربی، اردو اور فارسی کے مشترکہ مصمتوں کے علاوہ شینا زبان کے سات مخصوص مصمتے ہیں جن میں دو کشمیری اور ایک پنجابی زبان سے مشترک ہے۔
جْ ، چْ، چھْ ، شْ – یہ چار حروف شینا زبان کے خاص مصمتے ہیں اور ‘ ژ ، ژھ ‘ کشمیری زبان اور ‘ نْ ‘ پنجابی زبان کے مشترک مصمتے ہیں –
جیسے میں نے پہلے ہی لکھا کہ ہجرت اور دکھاوے کی وجہ سے اکثر لوگ شینا بولنے یا اپنے بچوں کو شینا سکھانے میں ایک عار محسوس کرتے ہیں اور دردستان کی قوم کے سامنے اپنی زبان، ثقافت اور تشخص کا تحفظ ایک بہت ہی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ شینا زبان بولنے والے جہاں اور جب مناسب سمجھیں تھوڑی سی فعالیت کرکے وقت رہتے ان مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کریں۔اپنے بچوں کو پرائمری جماعتوں میں ہی زبان اور کلچر کا تحفظ اور نسل درنسل ان کی منتقلی، زبان کا لکھنا پڑھنا اوراس کی نظم و نثر کا تعارف، حساب، ماحول کا ادراک اور مل جل کر رہنے کی تربیت دیں۔ اس کے علاوہ سب مل جل کر شینا رسم الخط سیکھنے کی کوشش کریں اور شینا پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کی محنت کریں۔ چوتھی جماعت کی شینا کی بنیادی درسی کتاب جو سرکاری اسکولوں میں مفت دستیاب ہے، اپنے بچوں اور خود بھی سیکھنے کی کوشش کریں۔ جن اساتذہ نے شینا رسم الخط پر تربیت لی ہے ان اساتذہ پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو شینا رسم الخط محنت اور ایمان داری سے سکھائیں اور ہوسکے تو محلے اور گاؤں میں بڑے لوگوں کو بھی سکھانے کی کوشش کریں ۔یاد رکھنا چاہئے کہ زبان اور کلچر کے تحفظ کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔ اگر ہم اپنی زبان اور کلچر کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ فطری اور موثر پرائمری تعلیم و تدریس اور تربیت صرف مادری زبان کے توسط سے ہی ممکن ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت اب بچوں کو سبھی درسی کتابیں اپنی مادری زبان میں ہی پڑھائی جائینگی اور اگر ہم نے اپنے رسم الخط پر محنت نہیں کی تو ہمیں کسی اور زبان میں ہی اپنے بچوں کو پڑھانا ہوگا جو کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے شاید ایک ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
زبان کی ترقی اور ترویج ایک قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ اہل زبان کبھی بھی اپنی زبان میں ڈگریاں حاصل نہیں کرتے لیکن محنت و کوشش سے وہ اپنی زبان کو اس بلندی پر لے جاتے ہیں کہ ان کو پڑھے بنا ان کی زبان میں کوئی ڈگری حاصل نہیں کی جاسکتی جیسے شیکسپئر،چارلس ڈکنس ، جے کے رولنگ وغیرہ نے انگریزی زبان میں کوئی ڈگری نہیں لی تھی لیکن آج انہیں پڑھے بنا کوئی بھی شخص انگریزی میں ڈگری نہیں لے سکتا ۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی مادری زبان سیکھ کر اپنی مادری زبان میں لکھنا پڑھنا شروع کریں۔ ہم اگر قومی جذبہ رکھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنی مادری زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے اپنے وجدان کے مطابق کوشش کریں ۔ہم جہاں بھی رہتے ہیں کوشش کریں کہ شینا بولنے والوں کے ساتھ صرف شینا میں ہی بات کریں ۔ اگر آپ ایک استاد ہیں تو اپنے سکول میں بچوں کو شینا سکھانے کے لئے ایک الگ کلاس کا انتظام کریں ،اکثر شینا میں ہی سکھانے سمجھانے کی کوشش کریں ۔ اگر آپ ایک صحافی ہیں تو ایک آدھ پروگرام روزانہ کی بنیاد پر شینا میں ہی کریں۔ اگر آپ ایک سیاسی رہنما ہیں تو اپنے لوگوں کے ساتھ اکثر تقاریر و بات چیت اپنی مادری زبان میں ہی کریں ۔ اگر آپ ایک سماجی کارکن ہیں تو کوشش کریں کہ اپنے علاقے میں کچھ ایسے پروگرام تشکیل دیں جو اپنی مادری زبان کی اہمیت ، اس کے تحفظ اور فروغ پر مبنی ہوں، اکثر کوشش کریں کہ ایسے پروگرام منعقد کریں جس میں لوگوں کو اپنی لسانی تشخص، قومی تحفظ، مادری زبان کا فروغ ،اپنی ثقافت اور اہمیت کے بارے میں جانکاری دی جائے ۔اگر آپ ایک شاعر ہیں یا ادیب ہیں تو اپنی مادری زبان میں بھی لکھیں اور اس کے فروغ کے لئے محنت کریں۔ اگر آپ ایک طالب علم ہیں تو کوشش کریں کہ آپ اپنے سکول، کالج میں اپنی ہی مادری زبان میں بولیں اور اپنے اساتذہ سے اپنی مادری زبان لکھنے اور پڑھنے اور سیکھنے کی مشق کریں۔
الغرض، اگر ہمیں اپنی قوم کا نام ،اپنی ثقافت ،اپنا لسانی تشخص اور اپنی تہذیب و شناخت کو زندہ رکھنا ہے تو اپنی مادری زبان کو سیکھنا، اس کے رسم الخط کو سیکھنا ،لکھنا پڑھنا سیکھنا بے حد ضروری اور ناگزیر ہے ورنہ بقول شاعر ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں ،کیونکہ ہم اپنی اکثر ثقافتی اور شناختی نشانیاں کھو چکے ہیں اور اپنی مادری زبان بھی اکثر بھول ہی چکے ہیں ۔
(مضمون نگار ایک طالب علم ہیں اور شینا زبان و رسم الخط کے ٹرینر ہیں )
پتہ۔بگلندر تلیل گریز حال میڈیکل کالج سرینگر
فون نمبر۔6006796300 ۔۔۔[email protected]
رابطہ۔اویل نورآباد،کولگام کشمیر