رشید پروینؔ ،سوپور
13جولائی مشہور و معروف صوفی شاعر بلکہ صوفی شعرا کے تاج میں چمکتے ہوئے انمول موتی رحیم صاب کے نام سے منسوب یوم رحیم صاب سوپور میںمنعقد ہو ا۔اگر میری یاداشت ابھی درست ہے تو ٹھیک 62برس کے بعد پھر ایک بار یہ دن منایا گیا اور اس سلسلے میںکلچرل اکادمی کے علاوہ رحیم صاب سے منسوب سوپور ہی کی ایک انجمن نے اہتمام کیاتھا۔اگر چہ کئی ہفتوں سے اس کا تذکرہ مجھ تک پہنچا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ یہ محفل شاید آرمپورہ رحیم صاب کی آرام گاہ کے نزدیک ہی منعقد ہوگی لیکن اچھا ہی ہوا کہ جائے مقام تبدیل کیا گیا تھا اور ڈاک بنگلہ سوپور کئی لحاط سے اس طرح کی محفلوں کے لئے بڑی ہی مناسب اور موزون جگہ ہے ۔
رحیم صاب پرجو بھی تھوڑی بہت تحقیق ہوئی ہے بہت ہی ناکافی اور کم ہے اور اس شان اور اس جیسے بلند وبالا صوفی شاعر اور روحانی بزرگ کی زندگی پر جتنا کام ہونا چاہئے تھا ،نہیں ہوا ہے ۔ان کی شاعری اور کلام کی نسبت سے یہ بات نہیں کر رہا کیونکہ صوفیانہ کلام کی کسوٹی وہ عام فہم کسوٹی ہو ہی نہیں سکتی جس میں تشبیہات ، استعارے ، اوزان ، بحریں ، ردیف و قافیہ اور پھر الفاظ کا چناؤوغیرہ کے بعد شعر میں سموئے ہوئے خیال کی
نزاکت اور خوبصورتی کو پرکھتے ہیں۔ صوفیانہ کلام کوئی اور چیز ہے کیونکہ یہ کلام شاعر کے اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا اظہار ہوتا ہے جو اس سے راہ سلوک اور تصوف کے منازل طے کرنے کے دوران حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ وہ مخفی مشاہدات ہیں جو کھلے عام شاید ظاہر نہیں کئے جاسکتے ۔
چونکہ میں نے تاریخ سوپو ر ’’ میرے سوپور تجھ پہ دل قربان ‘‘ میں بہت سارے شعرا کی مختصر ہسٹری اور ان کے کلام وغیرہ کا بھی مختصر سا جائزہ لیا ہے اور یہ کتاب مارکیٹ میں بھی موجود ہے۔ہم نے بھی رحیم صاب سوپور کو اس کتاب میں اول درجے پر رکھا ہے اور یہ ان کا حق تھا ۔جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ رحیم صاب 1775میں یا اس کے آس پاس پیدا ہوئے اور روایات کے مطابق75 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں ۔اس طرح سے وہ اس دور سے کم وبیش ڈھائی سو برس پہلے سوپور میں موجودرہے ہیں اور سوپور میں آج تک ان سے کئی محیر العقول روایات منسوب ہیں ۔وہ ایک بہت بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ اول درجے کے صوفی بھی رہے ہیں لیکن ہمیں اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہر شا عرصوفی نہیں ہوتا اور کسی بھی اچھے صوفی سنت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ شاعر بھی ہو ، مگر رحیم صاب سوپور کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔سر زمین کشمیر میں صوفی شعرا کی وہ کہکشاں جوآسمان ادب پہ جلوہ افروز نظر آتی ہے جسکا جواب نہیں اور جو بے مثال بھی ہے، ان میں شمس فقیر ، احمد بٹوار،نعمہ صاب، سوچھ کرال، محمود گامی ،رحمان ڈاراور متاخرین میں احد زرگر ، محی الدین گلشنؔ جیسے آفتاب و ماہتاب نظر آتے ہیں۔رحیم صاب بیشک صوفی تھے اور اپنے زمانے کے بے مثال شاعر رہے ہیں اور ان کے کلام کی تازگی اتنا لمبا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی ویسی ہی تازہ اور دلنشین ہے ۔
رحیم صاب ایک بلند پایہ شاعر ہو نے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے۔ ان کے والد ماجد کا نام عبدالرحمان شاہ تھا ۔اصلی جائے مسکن پہرو تھا اور ان کے والد سوپور آکر بس گئے تو یہیں کے ہو کے رہ گئے ۔یہ گھرانہ علمی لحاظ سے قابل عزت سمجھا جاتا تھا ۔رحیم سوپوری مروجہ تعلیم سے آراستہ تھے بلکہ عربی اور فارسی پر بھی دسترس تھی۔آپ کے مرشد مشہور بزرگ اور درویش قادر صاب رینن (رفیع آباد) تھے۔مشہور روایت ہے کہ رحیم صاب ایک بار اپنے مرشد کے ساتھ جنگل کی طرف چلے گئے تھے، اس اثنا میں کچھ ہستیاں قادر صاب کے ساتھ ملاقی ہوئیںاور انہوں نے مل کر معرفت کے جام نوش کئے ۔آخر میں مرشد نے رحیم صاب سے کہا کہ ان برتنوں کو چاٹ لے۔ ایسا ہی ہوا اور رحیم کی نگاہوں سے جو پردے اٹھتے گئے اور جو مشاہدات انہیں حاصل ہوتے گئے ،انہیںاپنے شعروں میں ڈھالتے گئے ۔یہی وہ لمحہ تھا جب رحیم شاہ جولہا ،رحیم فقیر کے قالب میں ڈھل گیا۔ شایدکچھ لوگ اس پہ اعتراض کریں مگر یہ کوئی نیا یا انوکھا واقع نہیں بلکہ صوفیا عظام کے ساتھ اسطرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں جب ان کا حال و قال اچانک بدل گیا یا کسی مرد حق و مومن کی ایک نگاہ نے انہیں یکسر ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں پہنچا دیا ہے اور ایسے واقعات سے لگ بھگ تمام اولیا یا اہل صفہ دوچار ہوئے ہیں ۔اور ان میں ہمیں کوئی شک نہیں۔
بہرحال ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبروں کومعجزات اور اولیأ حضرات کو کرامات سے سر فراز کیا ہے جن کے متعلق عقلی دلائل کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔رحیم صاب کا پیشہ (کار بافند) یعنی جو لہا تھے جیسا اس نے خود اپنے ایک شعر میں کہا ’’ر حیم بسیار شرمندہ۔۔ کرین کار فافندہ ‘‘۔ میری نظروں سے کسی کشمیری شاعر اور محقق کی کو ئی کتاب گذری ہے جس میں یہ بتایا گیاتھا کہ رحیم صاب (پہل یا چوپان ) خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو سراسر غلط بیانی اور نا قص تحقیق کا نتیجہ ہے۔ مرحوم محمد امین شکیب نے بھی رحیم صاب پر تحقیق کی ہے اور ساہتیہ اکا دمی نے اس تحقیقی کتاب کو چھاپا بھی ہے ۔اس میں ر حیم صاب پر کافی مواد دستیاب ہے ۔
رحیم صاب نے اپنی شاعری میں جہاںتصوف کے رنگوں کو نمایاں کیا ہے وہیں پر ویدانتک فلاسفی پر اپنی دسترس کا بھی اظہار کیا ہے مگر بنیادی طوررحیم صاب عاشق رسول ﷺ ہیں اور ان کی شاعری کا نیو کلیس یہی عشق ہے جو ام الکتاب ہے، انسانی وجود اور کائنات سے اس کا تعلق ، اور اللہ کی پہچان ۔اس کے بغیر پڑھنے سمجھنے کے لئے دنیا میں کیا رہ جاتا ہے؟ تو رحیم نے بھی اسی تصوف کی راہ میں بہت ساری منزلیں طے کی ہیں۔یہاں وہ اقبال اور رومی و جامی کے ہم سفر کہے جاسکتے ہیں کیونکہ عشق رسولؐ ہی ان بلند وبالا فقیروں کا ماحاصل اور منزل رہی ہے ۔ (کعبہء من قبلہء من، دین من ایمانِ من )
رحیم صاب سے بہت ساری روایات منسوب ہیں ۔یہ بھی روایت ہے کہ ایک بار معراج عالم کے موقعے پہ رحیم صاب کے چند مرید رفیع آباد سے شام کورحیم صاب کے گھر پہنچے کیونکہ سرینگر تک کا سفر ایک دن کا اُن دنوں نہیں تھا۔رحیم صاب نے اپنے مریدوں کو عشایا فجر پڑھانے کے بعد درود پڑھنے کی تلقین کی اور اسی دورا ن کھڑکی سے ہاتھ باہر کرکے موئے شریف ہاتھ میں لیکر اپنے مریدوں کو دیدار کرایا ۔یہ ایک مشہور رو ا یت ہے ۔کچھ اور بھی روایات ہیں۔
محمود گامی سے رحیم صاب کی ملاقات کا واقعہ مستند ہے۔ کہتے ہیں کہ محمود رحیم صاب سے ملنے کے لئے سوپور تشریف لائے اور رحیم صاب کو دیکھتے ہی ان کی رگ شرارت پھڑکی اور یوں سلام کی ( اسلام علیکم رحیم صاب نمبلی ) اور رحیم صاب نے بر جستہ جواب دیا (وعلیکم السلام محمود گامہ جنگلی)۔بہرحال اس ملاقات کا یہ بھی واقعہ ہے کہ رحیم صاب نے (دہرئے) بجاکر محمود کی کسی غزل کے جواب میں اپنی شہرہ آفاق غزل ( حالِ دل پنن دہرء ونن ۔ شرن گوم کنن،شرن گوم کنن )تخلیق کی۔
رحیم صاب کے کلام کے بغیر کوئی صوفی محفل مکمل نہیں ہوتی اور زما نہ گزرنے کے ساتھ ساتھ رحیم صاب کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ بہر حال مرنے یا انتقال کے بعد ہی حیات جاوداں کے حامل ہوجاتے ہیں ۔جتنا بھی کلام رحیم صاب کا چھپ چکا ہے ،اس کی بنا پر رحیم صاب کی صوفی شعرا میں ایک منفرد حیثیت ہے اور کشمیری شعر وادب کا تذکرہ ان کے بغیر کسی بھی طرح سے مکمل نہیں کہلایا جاسکتا ۔اس محلے میں اور بھی کئی مشہور شعرا حضرات پیدا ہوئے ہیں جن میں عمہ خوجہ متخلص الفت ؔکشمیری،احد کھار اور محمد کھار قابل ذکر ہیں۔
رحیم صاب صوفی شعرا کے سر تاج کہلائے جاتے ہیں ان کا کلام ان منازل کا پتہ بتادیتا ہے جو سلوک سے منسلک ہیں ۔ان پر ابھی بہت سا تحقیقی کام کیا جاسکتا ہے جو ان کی شاعری اور کلام کی گہرائیوں کو منکشف کر سکے ۔وہ آمپورہ (چنکی پورہ) میں آرام فرما ہیں ۔مرحوم ملک عبد المجید آرمپورہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ ان کے دادا محمد عبداللہ ملک کے پاس رحیم صاب کے قلمی نسخے موجود تھے بلکہ محمد عبداللہ ملک صاحب نے بقلم خود رحیم صاب کی مکمل سوانح حیات قلمبند کی تھی۔ ملک عبدالمجید کا کہنا ہے کہ یہ نسخے میں نے بھی دیکھے ہیں مگر کسی دور میںوہ نسخے ایک شخصیت لے گئی تھی جو آج تک واپس نہیں ہوئے اور نہ ہمیں معلوم ہے کہ ان قلمی نسخوں کا کیا بنا ۔ان قلمی نسخوںکا زیاںکشمیری زباں اور ادب کے لئے المیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔