عارف شفیع وانی
4 اکتوبر کو سکم میں بادل پھٹنے سے آنے والے گلیشیرسے ملنے والے پانی سے بننے والی جھیل بریک ہونے کے نتیجہ میں آئے سیلاب (جی ایل او ایف) نے جموں و کشمیر اور لداخ میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ شمالی سکم میں لوناک جھیل میں پانی کی سطح میں اچانک اضافہ کے بعد اب تک کم از کم 56 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ لاپتہ ہیں۔
سکم میں یہ کوئی اچانک واقعہ نہیں تھا۔ ماہرین ماحولیات سکم میں برفانی لوناک جھیل کے تباہ کن اثرات کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نیشنل ریموٹ سینسنگ سینٹر اور انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے 2013 میں کیے گئے ایک مطالعے میں بھی 42 فیصد کے زیادہ پھوٹ پڑنے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن ان تمام انتباہات کو پچھلی دہائی میں نظر انداز کر دیا گیا۔سیٹلائٹ تصاویر نے سکم میں GLOF کے پھٹنے کی تصدیق کی ہے۔ جھیل کا رقبہ 28 ستمبر کو 167.4 ہیکٹر سے کم ہو کر 4 اکتوبر کو 60.3 ہیکٹر رہ گیا ہے۔
ہمارے یہاںگلوبل وارمنگ اور آلودگی کی وجہ سے گلیشیئروں کے تیزی سے پیچھے ہٹنے سے لداخ کے علاوہ جموں و کشمیر کے مختلف پہاڑی سلسلوں میں برفانی جھیلیں پیدا ہو گئی ہیں اور ہمالیائی علاقوں کو گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) کا خطرہ ہے۔ڈھیلے مورین مواد سے بند برفانی جھیل کے اچانک پھٹنے کی وجہ سے GLOF نیچے کی آبادی کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے تباہی ہو سکتی ہے ۔ نیچے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرسکتی ہے، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہو سکتی ہیں اور پہاڑی برادریوں کی روزی روٹی متاثر ہوتی ہے۔
اگرچہ گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ( GLOFs )کو جغرافیائی اور موسمیاتی عوامل سے متحرک کیا جا سکتا ہے، سائنسی لٹریچر کی بہتات ہے جو یہ بتاتی ہے کہ زلزلے کرائیوسفیئر سے متعلق خطرے کے عمل کو بڑھاتے ہیں جن میں گلیشیل جھیل کی ناکامی شامل ہے جو گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ( GLOFs) اور چٹانوںو برفانی تودوں کے گرنے پر منتج ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر کو گزشتہ ایک دہائی سے شدید موسمی واقعات کا سامنا ہے۔ 7 ستمبر 2014 کو بھاری بارش اور بادل پھٹنے کے بعد اونچائی سے پانی کا بڑے پیمانے پر بہاؤ جہلم، چناب اور توی کے طاسوں میں بہہ گیا جس سے جموں و کشمیر میں تباہ کن سیلاب آیا۔جنوری 2015 میں کرگل میں زنسکار کے پھٹکل علاقے میں مٹی کے تودے گرنے سے ایک مصنوعی جھیل بنی تھی۔ ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں تاخیر زنسکار وادی کے نشیبی علاقوں میں “تباہ کن سیلاب” کا سبب بن سکتی ہے۔دو ماہ بعدنیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ایک اعلیٰ سطحی ٹیم نے جمع پانی کو نکالنے کے لئے ایک چینل بنایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 7 مئی 2015 کو مصنوعی جھیل پھٹ گئی جس سے سیلاب نے کئی پل بہا دئے اور مکانات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔
سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ وادی کشمیر کے جہلم طاس کا سب سے بڑا گلیشیئر کولہائی گلوبل وارمنگ اور انتہائی آلودگی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے تیزی سے سکڑ رہا ہے۔دو جھیلوں L1 اور L2 میں سے کوئی بھی تیزی سے نکل جانے کی صورت میں استھل گاؤںمیں گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ( GLOF )کا خطرہ ہے۔
تھجواس، ہوکسار، نہار، شیشرام، اور ہرمکھ کے آس پاس کے گلیشیئر بھی آہستہ آہستہ سکڑ رہے ہیں۔پگھلتے ہوئے گلیشیئر زمین کو ختم کرتے ہیں اور جگہ کو بھر دیتے ہیں جس سے برفانی جھیلیں بنتی ہیں۔ گلیشیئرکے سکڑنے کے علاوہ، ہمالیہ پر گرمی کا موجودہ منظر نامہ کمیونٹیز اور انفراسٹرکچر کو کرائیوسفیئر سے متعلق خطرات کے لئے زیادہ کمزور بناتا ہے جن کا ماضی میں تجربہ نہیں کیا گیا تھا۔
کشمیر یونیورسٹی میںشعبہ جیو انفارمیٹکس کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان رشید کہتے ہیں’’ان میں GLOF، چٹانیںو برفانی تودے، گلیشیئروں کا ٹکڑوں میں بکھرنا، پرما فراسٹ انحطاط کی وجہ سے چٹانوں کا پھسلنااور ملبے کا بہاؤ شامل ہیں۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے شمال مغربی ہمالیائی علاقوں میں لیہہ اور کرگل کے اضلاع گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) کے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں جن میں سے 180 پروگلیشیل جھیلیں ہیں جن میں سے زیادہ تر علاقے میں پھیل رہی ہیں‘‘۔ وسیع سائنسی مطالعات کی بنیاد پر ڈاکٹر رشید نے کہا کہ وادی کشمیر میں، جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں وشو کے اوپری حصے میں دو پروگلیسی جھیلیں گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) کے لئے حساس ہیں جونیچے استھل گاؤں کو متاثر کر سکتی ہیں۔
لیہہ سے تقریباً 74 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گیا گاؤں نے اگست 2016 میں گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) کاہلکا ساتجربہ کیا جس نے تعمیرات اور زراعت کو متاثر کیا۔لیہہ کے رمبک میں ایک اور زیادہ شدت والے گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF)کا تجربہ کیا گیا جس نے اگست 2021 میں تین پل تباہ کر دئے اور کئی کلومیٹر سڑکیں بہہ گئیں۔ لداخ میں جہاں پرگلیشیئل جھیلوں کی تعداد زیادہ ہے، وادی کشمیر کے نیچے کی طرف والے علاقے زیادہ آبادی اورانفراسٹرکچر کے تحت زیادہ رقبہ کی وجہ سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔
پہاڑی کشمیر ہمالیہ میں گزشتہ موسم سرما کے دوران معمول سے کم برفباری کے ساتھ سردیوں کے بلند درجہ حرارت اور گرمی کی لہروں نے گلیشیئر کے پگھلنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔کولہائی گلیشیئر 1962 سے اب تک اپنے رقبے کا تقریباً 23 فیصد کھو چکا ہے اور چھوٹے حصوں میں بٹ گیا ہے۔یہ اس حقیقت کے پیش نظر خاص طور پر اہم ہے کہ سندھ طاس میں تقریباً 5300 برفانی جھیلیں، ہزاروں برفانی چٹانیں اور غیر مستحکم کھڑی ڈھلوانوں پر پرما فراسٹ موجود ہیں جن میں جموں، کشمیر اور لداخ کے علاقے شامل ہیں۔ کرئیوسفیئر سے متعلق اس طرح کے خطروںکو مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ زلزلاتی اعتبار سے انتہائی خطرناک زون چار اور پانچ میں پڑتے ہیں۔ جموں و کشمیرانتہائی خطرناک زلزلاتی زونز 4اور 5کے تحت آتا ہے اور اسے زلزلوں کا خطرہ لاحق ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کو ایک طاقتور 7.6 شدت کے زلزلے نے جموں و کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا، جس میں 1350 افراد ہلاک ہوئے اور ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔
درنگ دُرنگ زنسکار کا سب سے بڑا گلیشیئر ہے اور ہمالیہ میں تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئروں میں سے ایک ہے کیونکہ برف پروگلیشیل جھیل میں گرکرپگھل رہا ہے۔ یہ جھیل 2008 کے بعد بننا شروع ہوئی، فی الحال 17 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے 39 ہیکٹر تک پھیلنے کا امکان ہے۔
معروف زمینی سائنسدان پروفیسر شکیل رومشو کا کہنا ہے کہ پچھلی چھ دہائیوں میں گلیشیئروںکے پگھلنے کے نتیجے میں پہاڑی برفانی خطوں میں کئی ڈیموں پر مبنی برفانی جھیلیں نمودار ہوئی ہیں۔وہ کہتے ہین’’چناب، زنسکار اور لیہہ کے علاقوں میں گزشتہ چار دہائیوں میں کئی برفانی جھیلیں تیار ہوئی ہیں اور ان کا سائز بڑھ رہا ہے‘‘۔پروفیسر رومشو تجویز کرتے ہیں کہ فیلڈ اور سیٹلائٹ پر مبنی مطالعات کے ذریعے ان جھیلوں کی مسلسل نگرانی کرنا اور ان ڈیموں پرمبنی جھیلوں کے پھٹنے سے وابستہ خطرے کا اندازہ لگانا ضروری ہے تاکہ انسانی بستیوں کو بروقت خبردار کیا جائے اور ان کے پھٹنے کی صورت میںنقصان کو کم کرنے کے لئے ضروری تخفیف کے اقدامات شروع کیے جائیں۔
مطالعے کے مطابق، تیس لاکھ ہندوستانی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کسی بھی وقت گلیشیئرسے بننے والی جھیل پھٹنے سے سیلاب( GLOF)آ سکتا ہے۔ اتراکھنڈ کے کیدارناتھ علاقے میں 16 جون 2013 کو شدید بارش، بادل پھٹنے اور چوراباری جھیل سے پھٹنے کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق 5700 لوگ، جن میں زیادہ تر یاتری تھے، ہلاک ہوئے۔7 فروری 2021 کو، نندا دیوی گلیشیر کا ایک حصہ اتراکھنڈ کے چمولی ضلع کے جوشی مٹھ میں ٹوٹ گیا، جس سے کم از کم سات افراد ہلاک اور 150 کے قریب لاپتہ ہو گئے۔ دہرادون کے شمال میں تقریباً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر نینا دیوی نیشنل پارک کے قریب دو پن بجلی پروجیکٹوں کو سیلاب نے تباہ کر دیا۔
گلیشیئر سے بننے والی جھیل پھٹنے سے سیلاب( GLOF) کے امکانات کو دیکھتے ہوئے جموںوکشمیر اور لداخ حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی پر ایک جامع ایکشن پلان وضع کرنا چاہیے۔ہائیڈرو پاور اور دیگر دریائی انجینئرنگ ڈھانچے کو نیچے کی طرف پانی کے تباہ کن اضافے اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے منسلک ملبے کو برداشت کرنے کیلئے ڈیزائن کیا جانا چاہئے خاص طور پر وادی چناب میں جہاں کئی پن بجلی پروجیکٹ زیر تعمیرہیں۔ گلیشیئر سے بننے والی جھیل پھٹنے سے سیلاب( GLOF)کو روکنے کے لئے یا برفانی جھیلوں کے پھٹنے کی صورت میں جان و مال کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کیلئے عالمی ماہرین کی مدد حاصل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘ کے ایگزیکٹیوایڈیٹر ہیں)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)